کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 294
گہرائیوں سے یقین رکھتے تھے۔ ان کے نزدیک آپ کی تعلیمات، ارشادات اور حالات و واقعات کی حیثیت عام انسانی وقائع کی نہ تھی کہ وہ ان کو معمولی حافظے کے سپرد کردیتے۔ ان کے لئے تو آپ کی معیت میں گزرا ہوا ایک ایک لمحہ سب سے زیادہ قیمتی تھا اور اس کی یاد کو وہ اپنا سب سے قیمتی سرمایہ سمجھتے تھے۔ اسی بنا پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ میری ساری عمر کی نیکیاں لے کر غارِ ثور کی ایک رات کی نیکیاں مجھے دے دے۔
(3) علم صحیح
حزم و احتیاط کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو علم صحابہ کو دیا تھا، وہ حقائق پر مبنی تھا۔ اس کا اعتراف صحابہ خود کرتے تھے۔ حضرت جعفر طیار نے نجاشی کے سامنے جو حقیقت واضح کی وہ اس کا بین ثبوت ہے کہ ہم اس سے پہلے جاہل اور گمراہ تھے، اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو پاکیزہ ترین اور صحیح علم دے رہے ہیں ۔ انہوں نے ہم کو جینا سکھایا ہے۔ اسی لئے صحابہ پوری توجہ سے آپ کی ہر بات کو سنتے تھے، ہر فعل کو دیکھتے تھے کیونکہ عملی زندگی میں عملاً اسی کا نقش پیوست کرنا تھا اور اس کی رہنمائی میں کرنا تھا۔
(4) ذمہ داری کااحساس
صحابہ کو یہ بھی احساس تھا اور وہ یہ ذمہ داری محسوس کرتے تھے کہ بعد میں آنے والوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات اور تعلیمات بالکل صحیح صورت میں پہنچائیں اور اس میں کسی قسم کی آمیزش نہ کریں ۔
حضور کی وعید کے بعد تو صحابہ اور محتاط ہوگئے تھے کہ اپنی طرف سے تغیر و تبدیلی کوئی معمولی جرم نہیں بلکہ وہ اسے عظیم خیانت تصور کرتے تھے۔ دین کو امانت سمجھ کر انہوں نے آگے منتقل کیا۔
(5) اکابر صحابہ کی تلقین
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تلقین کے علاوہ اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم بھی عام صحابہ رضی اللہ عنہم کو احادیث روایت کرنے میں احتیاط کی تلقین کرتے تھے، اس معاملے میں سہل انگاری برتنے سے شدت کے ساتھ روکتے تھے۔ بعض اوقات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سن کر شہادتیں طلب کرتے تھے اور اطمینان کے لئے امتحان بھی لیتے مثلاً ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو حج کے موقع پر عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث پہنچی، دوسرے سال حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حج کے موقع پر ہی یہی حدیث عبداللہ کو سنانے کے لئے کہا۔ دونوں مرتبہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے بیان میں سرمو فرق نہ پایا گیا۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے میت کی دادی کو میراث ۶/۱ حصہ اس وقت دیا جب مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ اور محمد بن سلمہ رضی اللہ عنہ نے شہادت دی۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے جب اِذن طلب کرنے کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو