کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 292
							
						
								
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’من رغب سنتی فليس منی‘‘ (بخاری: نمبر ۵۰۶۳) 
’’وہ مجھ سے نہیں جس نے میری سنت سے اعراض کیا۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حافظہ کی مدد سے حدیث کو یاد رکھنے کا کام لیتے تھے۔ حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تحریص وترغیب کا یہ نتیجہ ہواکہ صحابہ رضی اللہ عنہم ذوق وشوق سے احادیث کو یاد رکھتے جو حضور کی محفل میں حاضر نہ ہوسکتے، وہ باری باری کا شانۂ نبوت میں حاضری دیتے۔ مثلاً حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام سے باری باندھی ہوئی تھی کہ ایک دن میں کاشانۂ نبوی میں حاضر ہو کر نورِ نبوت سے فیضیاب ہوں گا تو اس سے آپ کو آگاہ کروں گا لیکن جس دن میں حاضر نہ ہوسکوں تو آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں حاضر ہوکر فیض حاصل کریں اور ارشاداتِ نبوی سے مجھے آگاہ کریں ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا صحابہ دَور کرتے۔ ایک دوسرے کو سناتے، مذاکرے ہوتے اور ایک دوسرے سے اخذ و استفادہ کرتے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے : 
’’میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا۔ آپ مسجد میں داخل ہوئے تو آپ نے مسجد میں ایک جماعت بیٹھی ہوئی پائی۔ فرمایا: تم کس لئے بیٹھے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے فرض نماز پڑھی پھر ہم بیٹھ گئے۔ ہم اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت کا مذاکرہ کررہے ہیں ۔ آپ نے فرمایا: 
	’’اللہ جس چیز کا ذکر کرتے ہیں ، اس کا ذکر بڑھ جاتا ہے۔‘‘ [1]
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ، حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ، حضرت ابو سعید اور ان کے علاوہ دیگر اکابرین صحابہ اور تابعین حدیث کے مذاکروں میں اپنے ساتھیوں اور شاگردوں کو تاکید کرتے تھے۔علی رضی اللہ عنہ فرماتے تھے:
’’تذاکروا الحديث و تزاوروا فإنکم إن لم تفعلوا يدرس‘‘
’’احادیث کا تکرار کیا کرو اور ایک دوسرے سے ملتے رہو اگر ایسا نہ کرو گے تو علم ضائع ہوجائے گا‘‘
بقولِ سید منت اللہ
’’صحابہ کرام میں دو چیزوں کا چرچا تھا: کلام اللہ اور احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ وہ اپنے وقت کو انہیں دو کاموں میں صرف کرتے اور انہیں دو چیزوں کو خود پڑھتے، دوسروں کو پڑھاتے یا ان سے سنتے رہتے تھے۔ اپنے ساتھیوں اور شاگردوں کو انہی چیزوں کے مذاکرہ اور حفظ کی تاکید کرتے رہے۔ تو پھر جنہوں نے حدیث کو اپنا مشغلہ بنا لیا ہو، انہیں حدیثیں یادنہ رہتیں تو اور کس کو رہتیں ۔‘‘[2]
حفظ ِحدیث میں حزم و احتیاط اور اس کے محرکات
صحابہ حفظ ِحدیث اور روایت میں بڑی احتیاط سے کام لیتے اوراس کو وہ اپنی بڑی ذمہ داری محسوس کرتے تھے تاکہ بعد میں آنیوالی نسلوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات صاف شفاف صورت میں بغیر کسی آمیزش
						    	
						    
						    	[1] 	دارمی، مذاکرۃ العلم، جلد۱، ص۱۵۰
[2] 	سید منت اللہ رحمانی: کتابت ِحدیث، ص۳۰
						    	
							
						