کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 291
							
						
								
 کرتے ہیں :
’’نضر اللَّه امرئً سمع منا حديثا فحفظه حتی يبلغه فرُبّ حامل فقه إلی من هو أفقه منه ورب حامل فقه ليس بفقيه‘‘[1]
’’اللہ اس شخص کو خوش و خرم رکھے جو ہم سے کوئی بات سنے اور دوسروں تک پہنچا دے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص سمجھ کی بات کسی ایسے شخص کو پہنچا دیتا ہے جو اس سے زیادہ فقیہ ہو اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص جو خود فقیہ نہیں ہوتا مگر وہ فقہ اٹھائے ہوتا ہے۔‘‘
3. حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ليبلغ الشاهد الغائب عسیٰ ان يبلغ من هو أوعیٰ‘‘[2]
’’جو حاضر ہے، وہ اس کو پہنچا دے جو حاضر نہیں ،ممکن ہے کہ وہ کسی ایسے آدمی تک پہنچا دے جو اس سے زیادہ یاد رکھنے والا ہو۔‘‘
4. قاضی ابو شریح کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پرخطبہ دیا جسے میں نے خود کانوں سے سنا اور خوب یاد رکھا۔ وہ موقع اب تک میری آنکھوں میں سمایا ہوا ہے۔ خطبہ کے اختتام پر آپ نے فرمایا: 	’’ليبلغ الشاهد الغائب‘‘ 
’’جو حاضر ہیں وہ ان لوگوں سے پہنچا دیں جو حاضر نہیں ہیں ۔‘‘[3]
5. حجۃ الوداع ۱۰ہجری میں وہی بات کہی جو فتح مکہ کے موقع پر کہی تھی۔
6. ابوجمرہ کہتے ہیں کہ بنی عبدالقیس کا وفد بحرین سے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم ایسے قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں کہ ہم سوائے حرام مہینوں کے آپ کی خدمت میں نہیں آسکتے، لہٰذا ہم کو ایسے اعمال بتائیں کہ ہم پیچھے والوں کو اس سے مطلع کریں اور اس کے سبب ہم جنت میں چلے جائیں ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چند احکام دیئے اور فرمایا: ’’احفظوہ واخبروا من وراء کم‘‘[4] ’’اس کو یاد کرلو اور پیچھے والوں کو بھی بتاؤ۔‘‘
پروفیسر خالد علوی نے مولانا سید امین الدین کی رائے نقل کی ہے کہ حضور رسالت ِمآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صحابہ کے لئے دعا فرمائی جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی حفاظت کرتے اور ضبط میں رکھتے اور پوری صحت اور اتقان کے ساتھ اس کو دوسروں تک پہنچاتے۔ حفاظت ِحدیث اور مبلغین حدیث کے لئے حضور کی مذکورہ دعا ثابت کرتی ہے کہ حفظ ِحدیث اور اس کی تبلیغ، حضور کی رضا اور خوشنودی، حیاتِ صحابہ کا عظیم اور اہم سرمایہ تھا۔ صحابہ خوب جانتے تھے کہ اللہ کے رسول کوراضی رکھنا ایمان والوں کے حفظ ِایمان کے لئے نہایت ضروری ہے: [5]
﴿ وَاللّٰهُ وَرَسُوْلُه أَحَقُّ اَنْ يُرْضُوْه اِنْ کَانُوْا مُؤمِنِيْنَ﴾ (توبہ:۶۲) 
’’اللہ اور اس کے رسول کو راضی رکھنا بہت ضروری ہے، اگر وہ ایمان رکھتے ہیں ۔‘‘
						    	
						    
						    	[1] 	ابوداؤد، کتاب العلم
[2] 	بخاری، الجامع الصحیح
[3] 	بخاری، جلد۳، ص ۴۵، حدیث نمبر ۱۰۴
[4] 	بخاری، کتاب العلم، جلد۱ ، ص ۲۲
[5] 	خالد علوی، حفاظت حدیث، ص۱۲۰
						    	
							
						