کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 289
صحابہ زیادہ تر حفاظت ِحدیث کے سلسلہ میں سفینہ کے بجائے سینہ پر اعتماد کرتے تھے۔ ڈاکٹر صبحی صالح حفاظت ِحدیث کے ضمن میں لکھتے ہیں : ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کتابت ِحدیث سے منع کرنا اور حفظ کو اہمیت دینا، یہ آپ کی حکمت ِتدریس کا حصہ تھا تاکہ صحابہ کا حدیث ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک خاص تعلق اور ربط پیدا ہوجائے۔ یہ تربیت تدریجی اور اسلامی معاشرہ کے حوادث و اَحوال سے بالکل ہم آہنگ تھی۔ یہ تربیت جامد نہ تھی کہ ایک ہی شکل وصورت پر قانع رہتی، بلکہ اس میں اشخاص و ازمنہ کے احوال و مقامات کا لحاظ رکھا جاتا تھا۔‘‘[1] حضورِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی دعوت کا آغاز کیا تو اس وقت عرب میں پڑھنے لکھنے کا رواج کم تھا۔ ایسے لوگوں کی تعداد تو اُنگلیوں پر گنی جاسکتی تھی جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ قرآن نے خود ان کو اَن پڑھ کہا جن کے اندر سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعوت لے کر اٹھے : ﴿ هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِیْ الاْمِّيِّيْنَ رَسُوْلاً مِّنْهُمْ﴾[2] ’’اللہ وہ ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہی میں سے پیغمبر بھیجا۔‘‘ طبقاتِ ابن سعد رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بعثت ِنبوی کے وقت سولہ سترہ سے زیادہ آدمی لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھیکہ عرب لکھنے پڑھنے کو پسند نہ کرتے تھے۔ صحرائی لوگ تو پڑھنے کو حقارت سے دیکھتے تھے۔ لکھنے پڑھنے کے خلاف حقارت کا یہ جذبہ آج تک صحرائی قبائل میں بدستور باقی ہے۔ ذوالرمہ اور مخضرمی جو بہت بڑے شاعر ہیں ، وہ اس بات کو چھپاتے رہے کہ وہ فن کتابت سے آشنا ہیں ، کہ کہیں لوگ اُنہیں ناپسند نہ کرنے لگیں ۔ کتابت ِحدیث کے عدمِ رجحان اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ممانعت کی وجہ سے صحابہ حافظہ پر زیادہ اعتماد کرتے۔ احادیث کو حفظ کرتے اور حافظہ کی مدد سے ہی بوقت ِضرورت اس کو مستحضر کردیتے تھے۔ پروفیسر خالد علوی لکھتے ہیں کہ ’’حافظہ پر اعتماد ہی کا نتیجہ تھا کہ بڑی مدت تک علما حفظ ہی کرتے رہے۔ انہوں نے لکھنے کو پسند نہیں کیا۔‘‘[3] امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے : ’’کان هذا العلم شيئا شريفاً إذا کان من أفواه الرجال يتلاقونه ويتذاکرونه فلما صار فی الکتب ذهب نوره و صار إلی غير أهله‘‘ ’’حدیث کا علم قیمتی اور شریف اس وقت تھا جب لوگوں کے منہ سے حاصل کیا جاتا تھا۔ لوگ باہم ملتے جلتے رہتے تھے اور آپس میں ان کاذکر کرتے رہتے تھے۔ لیکن جب سے حدیثیں کتابوں میں لکھی جانے لگیں تو اس کا نور اور ا س کی رونق جاتی رہی اور یہ علم ایسے لوگوں میں پہنچ گیا جو اس کے
[1] صبحی صالح، ڈاکٹر، علوم الحدیث، ص۳۹ [2] القرآن [3] خالدعلوی، حفاظت حدیث، ص ۵۹