کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 288
نظیر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ خود مسلمان علما میں یہ جملہ مشہور رہا: ’’العلم فی الصدور لا فی الکتب‘‘ فی الحقیقت علم وہی ہے جو انسان کو مستحضر ہو۔ اس استحضار کے لئے حافظے کے سوا اور کوئی شے نہیں ہے۔ خود ہندوستان میں سیدانور شاہ کشمیری، سید نذیر حسین محدث دہلوی، حافظ عبدالمنان وزیرآبادی اور حافظ محمد محدث گوندلوی رحمہم اللہ بے نظیر حافظے کے مالک تھے۔ عربوں اور غیر عربوں میں آج بھی اس امر کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ اَن پڑھ لوگ اور نابینا آدمی پڑھے لکھے اور بہت انسانوں کی نسبت زیادہ یادداشت رکھتے ہیں ۔ ناخواندہ تاجروں میں ایسے لوگ بکثرت دیکھے جاتے ہیں جنہیں بہت سے گاہکوں کے ساتھ اپنا ہزارہا روپے کا لین دین تفصیل کے ساتھ یاد رہتا ہے۔ بے شمار اندھے ایسے موجود ہیں جن کی قوتِ حافظہ آدمی کو حیرت میں ڈال دیتی ہے۔ یہ اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ تحریر پر اعتماد کرلینے کے بعد ایک قوم کے حافظے کی وہ حالت باقی نہیں رہ سکتی جو ناخواندگی کے دور میں اس کی تھی۔ عربوں کا تعلق جب کلامِ الٰہی سے ہوا تو ان کو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآنِ مجید سے بے پناہ عقیدت ومحبت ہوئی۔ انہوں نے قرآن و حدیث کو حفظ کرنا شروع کیا۔ بے شمار صحابہ رضی اللہ عنہم نے قرآن کو اپنے سینے سے لگا لیا۔ جنگ ِیمامہ میں تقریباً ۷۰/حفاظِ قرآن صحابہ تھے جو شہید ہوگئے، جس کے خوف سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس خدشہ کا اظہار کیا کہ اگر اس طرح حفاظ صحابہ دنیا سے اُٹھتے چلے گئے تو قرآن محفوظ نہ رہ سکے گا۔ ان کی اس تحریک پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قرآن کو کتابی شکل میں مدوّن کیا۔ یوں بھی کوئی قرآن کی آیت /سورت نازل ہوتی تو صحابہ اس کو اَزبر کرلیتے۔ یہی تعلق ان کا حدیث ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تھا۔ حفظ ِحدیث ، ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ جو آپ کے خادمِ خاص تھے، کہتے ہیں کہ ’’ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتے اور حدیث سنتے جب ہم اٹھتے تو ایک دوسرے سے دہراتے حتیٰ کہ ہم اس کو ازبر کرلیتے۔‘‘ ایک اور واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ’’ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیثیں سنتے اور جب آپ مجلس سے تشریف لے جاتے تو ہم آپس میں حدیثوں کا دور کرتے۔ یکے بعد دیگرے ہم میں ہر شخص ساری حدیثیں بیان کرتا، اکثر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محفل میں بیٹھنے والوں کی تعداد ساٹھ تک ہوجاتی اور وہ سب باری باری بیان کرتے۔ پھر ہم اُٹھتے تو حدیثیں یوں یاد ہوتیں کہ گویا وہ ہمارے دلوں پر نقش ہوگئی ہیں ۔‘‘[1]
[1] مجمع الزوائد جلد۱ صفحہ ۱۶۱ بحوالہ حفاظت حدیث از خالد علوی، ص۱۱۱