کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 282
متعلق خبریں اس انصاری کو بتا دیتا اور جس دن وہ جاتا، وہ بھی یوں ہی کرتا تھا۔‘‘ [1]
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث سن کر آتے تو مل کر دہرایا کرتے حتیٰ کہ وہ اَ زبر ہو جاتیں ۔ [2]
حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ خدری فرماتے ہیں کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد بیٹھے ہوئے حدیث سنتے اور لکھتے تھے۔ [3]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور کے صحا بہ رضی اللہ عنہم میں کوئی شخص ایسا نہ تھا جس کو مجھ سے زائد حدیثیں یاد ہوں ، ہاں عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کو (حدیثیں مجھ سے زائد یاد تھیں ) کیونکہ وہ لکھ لیتے تھے اورمیں لکھتا نہ تھا۔ [4]
حضرت سُلَمِی فرماتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ لکھنے کی تختیاں ان کے پاس تھیں ، ان پر وہ ابو رافع سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ افعال لکھ کر نقل کررہے ہیں ۔ [5]
کتابت ِحدیث کے لیے احکامِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
1. حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ کی احادیث روایت کروں ۔ میرا اِرادہ ہے کہ میں دل کے ساتھ ہاتھ سے لکھنے کی مدد بھی لوں ،اگر آپ پسند فرمائیں تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’إن کان حديثی ثم استعن بيدک مع قلبک ‘‘[6] ’’اگر میری حدیث ہو تو اپنے دل کے ساتھ اپنے ہاتھ سے بھی مدد لو۔‘‘
2. حضر ت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک انصاری آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں بیٹھا کرتے اوراحادیث سنتے تھے۔وہ انہیں بہت پسند آتیں لیکن یاد نہیں رہتی تھیں ، چنانچہ انہوں نے آپ سے شکایت کی کہ یا رسول اللہ! میں آپ سے حدیثیں سنتا ہوں لیکن مجھے یاد نہیں رہتیں ، آپ نے فرمایا :’’استعن بيمينک وأومأ بيده الخط‘‘[7]
’’اپنے دائیں ہاتھ سے مدد حاصل کرو اور آپ نے اپنے ہاتھ سے لکھنے کا اشارہ کیا ۔‘‘
3. حضرت رافع رضی اللہ عنہ بن خدیج فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ ہم آپ سے بہت سی باتیں سنتے ہیں کیا ہم انہیں لکھ لیا کریں …آپ نے فرمایا : ’’اکتبوا ولاحرج‘‘ ’’لکھ لیا کرو کوئی حرج نہیں ‘‘[8]
4. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ خطبہ دیا ۔ یہ سن کر ایک یمنی شخص (ابوشاہ) نے حاضر ہو کر عرض کیا، یا رسول اللہ! یہ (سب احکام) مجھے لکھ دیجئے۔ آ پ نے فرمایا: ’’اکتبوا لأبی فلان‘‘ ’’ابو فلاں کو لکھ دو ‘‘[9]اور ترمذی کی رو ایت میں ہے کہ’’اکتبوا لأبی شاه‘‘ ’’ابو شاہ کولکھ دو ‘‘[10]
[1] الجامع الصحیح ، از بخاری کتاب المظالم ج ۲ ص ۱۴۵
[2] الجامع لاخلاق الراوی وآداب السامع از خطیب بغدادی ج ۱ ص ۲۳۶
[3] مجمع الزوائد از نور الدین ، الہیثمی ج ۱ ص ۱۶۱
[4] الجامع الصحیح از بخاری کتاب العلم ج ۱ ص ۱۵۸
[5] الطبقات الکبریٰ لابن سعد ج ۲ ص ۳۷۱
[6] سنن الدارمی از عبد اللہ بن عبد الرحمن الدارمی ج ۱ ص۱۲۶
[7] جامع ترمذی ج ۲ ص ۱۲۸
[8] تدریب الراوی از حافظ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ ص ۲۸۶
[9] الجامع الصحیح از بخاری رحمۃ اللہ علیہ کتاب العلم ،ج ۱ ص ۱۵۷
[10] جامع ترمذی ج ۲ ص ۱۲۸