کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 281
صادر شدہ احکام وافعال کو محفوظ کرنا دینی فریضہ بن گیا تھا ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت آپ کے ان ارشادات کی اَمین تھی۔ حفاظت ِحدیث کے لیے صرف حفظ کا طریقہ ہی اختیار نہ کیاگیا بلکہ احادیث کے لکھنے کابھی اہتما م کیا گیا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کامکتوب ذخیرہ محفوظ ہے اور عقل عام رکھنے والا آدمی اندازہ کر سکتا ہے کہ عہد ِنبوی میں کتابت حدیث کا باقاعدہ اہتمام تھا۔ [1] احادیث کے حفظ وروایت کی تاکید احادیث کے حفظ وروایت کی تاکید مندرجہ ذیل احادیث سے ثابت ہوتی ہے : 1. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حدّثوا عني‘‘ ’’مجھ سے حدیث بیان کرو ‘‘[2] 2. حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بلّغواعني ولوآية‘‘ میری طرف سے (لوگوں کو میرا پیام) پہنچاؤ خواہ ایک ہی آیت ہو [3] 3. حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ليبلّغ الشاهد الغائب فإن الشاهد عسی أن يبلغ من هو أوعی له منه‘‘ ’’اور ضروری ہے کہ حاضر شخص غائب کو یہ حکم پہنچا دے کیونکہ ممکن ہے کہ جس شخص کو یہ حکم پہنچایا جائے وہ حاضرین سے زیادہ اس کو محفوظ کرنے والا ہو۔‘‘ [4] حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا : ’’نضّر اللَّه امرأ سمع منا شيئا فبلغه کما سمعه فربّ مبلَّغ أوعی من سامع‘‘ ’’اللہ تعالیٰ اس شخص کے چہرے کو تروتازہ رکھے جس نے ہم سے کوئی چیز سنی اور پھر بالکل اسی طرح دوسروں تک پہنچا دی جس طرح سنی تھی، اس لیے کہ بہت سے ایسے لوگ جنہیں حدیث پہنچے گی وہ سننے والے سے زیادہ یاد رکھنے والے ہوں گے ۔‘‘ [5] گیارہ ہزار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایسے ہیں جن کے نام ونشان آج تحریری صورت میں موجود ہیں ۔ جن میں سے ہر ایک نے کم وبیش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال وواقعات میں سے کچھ نہ کچھ حصہ دوسروں تک پہنچایا ہے یعنی جنہوں نے روایت ِحدیث کی خدمت انجام دی ہے ۔ [6] صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اہتمامِ سماعت ؛ حفظ وکتابت ِحدیث حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ’’میں اور میرا ایک انصاری ہمسایہ قبیلہ بنو اُمیہ بن زید میں رہتے تھے اور یہ قبیلہ مدینہ کے باہرپورب (مشرق)کی طرف رہتاتھا ۔ہم دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں باری باری حاضر ہوتے، ایک روزوہ جاتا تھا اور ایک روز میں ۔ میں جب جاتا تھا تو اس دن کی وحی وغیرہ سے
[1] حفاظت ِحدیث ، ڈاکٹر خالد علوی /۵ ص ۵۶ تا ۶۵ [2] مسلم ،الجامع الصحیح، کتاب الزہد ج۶ ص ۵۰۱ [3] کتا ب العلم ،بخاری، کتاب الانبیاء ،باب ما ذکر عن بنی اسرائیل ج ۲ ص ۶۹۲ [4] الجامع الصحیح ، از بخاری ، کتاب العلم ج ۱ ص ۱۳۵ [5] جامع ترمذی از محمد بن عیسیٰ ترمذی ج ۲ ص ۱۲۵ [6] خطبات ِمدراس از سید سلیمان ندوی ص ۴۴