کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 276
انکارِ حدیث کے خارجی اسباب 5.برطانوی سامراج کی سازش: ہندوستان پر انگریز حکومت کی مکمل عملداری اور ۱۸۵۷ء کی جنگ ِآزادی میں کامیابی کے بعد انگریز، مسلمانوں کو اپنی انتقامی کارروائیوں کانشانہ بنانے لگے کیونکہ انہوں نے مسلمان حکمرانوں سے حکومت چھینی تھی اور انہیں ہر وقت مسلمانوں کی طرف سے مزاحمت کا خطرہ رہتا تھا۔ مزید برآں جنگ ِآزادی میں مسلمانوں نے انگریزوں سے سخت مقابلہ کیا تھا، لہٰذا وہ مسلمانوں کو ہر میدان میں کچلنا چاہتے تھے۔ لیکن ان کے رستے کی سب سے بڑا رکاوٹ مسلمانوں کی اپنے بنیادی عقائد کے ساتھ مکمل وابستگی اور آپس کا اتحاد تھا۔ چنانچہ انگریزوں نے مسلمانوں کو دینی اعتبار سے کمزور کرنے کے لئے مختلف سازشیں شروع کردیں ۔ مثلاً مسلمانوں میں فرقہ بندی کو ہوا دینے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں ہی میں ایسے رجال تیار کئے جنہوں نے مختلف دینی احکام سے انحراف کرکے دین میں نئے نئے فتنے پیدا کئے۔ ان فتنوں میں انکارِ ختم نبوت اور انکارِ حدیث کے فتنے نہایت نقصان دہ اور خطرناک ثابت ہوئے۔ انگریزوں نے ان فتنوں کی مکمل پشت پناہی کی۔اس سلسلے میں انگریزوں کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے مولانا مفتی محمد عاشق الٰہی بلند شہری لکھتے ہیں : ’’انگریزوں نے جب غیر منقسم ہندوستان میں حکومت کی بنیاد ڈالی تو اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایسے افراد بنائے جو اسلام کے مدعی ہوتے ہوئے اسلام سے منحرف ہوں ۔ اس طرح کے لوگوں نے تفسیر کے نام سے کتابیں لکھیں ، معجزات کا انکار کیا، آیاتِ قرآنیہ کی تحریف کی۔ بہت سے لوگوں کو انگلینڈ ڈگریاں لینے کے لئے بھیجا گیا۔ وہاں سے وہ گمراہی، الحاد،زندیقیت لے کر آئے۔ مستشرقین نے ان کو اسلام سے منحرف کردیا۔ اسلام پر اعتراضات کئے جو ان کے نفوس میں اثر کرگئے اور علما سے تعلق نہ ہونے کی وجہ سے مستشرقین سے متاثر ہوکر ایمان کھو بیٹھے۔ انگریزوں نے سکول اور کالجوں میں الحاد اور زندقہ کی جو تخم ریزی کی تھی، اس کے درخت مضبوط اور بار آور ہوگئے اور ان درختوں کی قلم جہاں لگتی چلی گئی، وہیں ملحدین اور زندیق پیدا ہوتے چلے گئے۔‘‘ [1] مسلمانوں کے خلاف انگریزوں کی سازشوں کے اثرات ظاہر ہونے لگے، فتنۂ انکارِ حدیث ان سازشوں کی ایک اہم کڑی تھی۔ چنانچہ ہندوستان میں فتنۂ انکار حدیث کے اسباب اور اثرات کا نقشہ کھینچتے ہوئے مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ’’تیرہویں صدی میں یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا جب کہ مسلمان ہر میدان میں پٹ چکے تھے۔ ان کے اقتدار کی اینٹ سے اینٹ بجائی جاچکی تھی۔ ان کے ملک پر دشمنوں کا قبضہ ہوچکا تھا اور ان کو معاشی حیثیت سے بُری طرح کچل ڈالا گیا تھا، ان کانظامِ تعلیم درہم برہم کردیا گیا تھا اور ان پر فاتح قوم نے اپنی تعلیم، اپنی تہذیب، اپنی زبان، اپنے قوانین، اور اپنے اجتماعی وسیاسی اور معاشی
[1] محمد عاشق الٰہی، مفتی، فتنہ انکار حدیث اور اس کا پس منظر، لاہور ادارہ اسلامیات، ۱۹۸۶ء ص۷