کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 275
ہیں کہ ہم اس حدیث کو نہیں مانتے۔‘‘[1] 3. عقل کو معیار بنانا: تاریخ اسلام اس چیز کی گواہ ہے کہ جب بھی اسلام میں کسی فرقہ یا گروہ نے اپنے عقائد و نظریات کو داخل کرنا چاہا تو عقل کا سہارا لیا اور عقل کی برتری کو منوانے کی کوشش کی۔ چنانچہ دوسری صدی ہجری میں معتزلہ کے انکارِ حدیث کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے عقل کو فیصلہ کن حیثیت دی اور راہِ راست سے بھٹک گئے۔ برصغیر میں انکارِ حدیث کے دیگر اسباب میں ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ منکرین حدیث نے بعض ایسے اُمور میں عقل کا فیصلہ مانا جہاں عقل عاجز ہے۔ مثلاً جو حدیث عقل میں نہ آئی، اس کو ماننے سے انکار کردیا۔ حالانکہ انسانی عقل وحی کی محتاج ہے اور اسے قدم قدم پر رہنمائی اور ہدایت کی ضرورت ہے۔ عقل کی بنیاد پر حدیث کو قبول نہ کرنے کے معیار اور عقل کی بے بسی کا تذکرہ کرتے ہوئے محمد ادریس فاروقی لکھتے ہیں : ’’بعض حضرات نے تو حدیث کے ٹھکرانے اور ناقبول کرنے کا معیار اپنی عقل، مشاہدہ اور فکر کو قرار دے رکھا ہے۔ حدیث خواہ کس قدر بے غبار اور صحیح ہو، سند کتنی مضبوط ہو، رواۃ کتنے بے عیب ہوں ۔ پوری اُمت نے قبول کیا ہو، ان کی بلا سے، انہیں ان باتوں کی کوئی پرواہ نہیں ۔ انہوں نے کامل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ناقص عقل سے کم تر مقام دیا جو کہ افسوسناک بلکہ خطرناک ہے۔ عام طور پر ہمارے انگریزی خواں حضرات اور ماڈرن دوست اسی آسان اُصول کوقبول فرما لیتے ہیں کہ جو حدیث عقل میں نہ آئے، اس کو قبول کرنے سے انکار کردیا حالانکہ عقل کو کیسے معیار قرار دیا جاسکتا ہے۔ عقل تو خام ہے۔ پھر عقل میں تفاوت ہے، سب کی عقل ایک جیسی نہیں ۔ بہت سے لوگ ہیں کہ ان کی عقل پر مادّیت کا غلبہ ہے اور اس پر یورپ کی چھاپ ہے اور وہ اسلامی حدود و قیود سے سو فیصد نابلد اور یکسر ناآشنا ہے۔ خود فرمائیے مطلق عقل، اور پھر ایسی عقل حدیث کی جانچ کیسے کرسکتی ہے؟‘‘[2] 4. دنیاوی اغراض و مقاصد کا حصول:انکارِ حدیث کی ایک وجہ اغراض و مقاصد کا حصول بھی ہے جن کی خاطر جان بوجھ کر منکرین حدیث اس گمراہی کے مرتکب ہوئے چنانچہ مولانا محمد قطب الدین لکھتے ہیں : ’’منکرین حدیث اور ان کے پیشوا علماءِ یہود کی مانند محض دنیوی اغراض و مفادات کے لئے دیدہ و دانستہ ’کتمانِ حق‘ بھی کرتے ہیں اور ’التباسِ حق و باطل‘ بھی۔ ‘‘[3] پروفیسر محمد فرمان نے انکار حدیث کی مختلف وجوہات کا احاطہ درج ذیل الفاظ میں کیا ہے : ’’ہمیں یہ تسلیم ہے کہ بعض لوگوں نے دنیاوی جاہ و منصب کے لئے حدیث کو نشانہ بنا رکھا ہے۔ بعضوں نے کسی محبوب کا اشارہ پاکر یہ تحریک شروع کررکھی ہے بعضوں نے کم علمی اور اسلام کے سطحی مطالعہ کی بنیاد پر یہ روش پسند کرلی ہے۔‘‘[4]
[1] سلفی ، محمد اسماعیل، مولانا، حجیت حدیث، لاہور، اسلامک پبلی کیشنز ہاؤس، ۱۹۸۱ء ص ۱۷۷ [2] فاروقی، محمد ادریس، مقام رسالت، لاہور مسلم پبلی کیشنز، ۱۹۷۰ء، ص۱۶ [3] محمد قطب الدین، مولانا، مظاہر حق، ۱۹۶۶ء، ج۱ ، دیباچہ کتاب [4] محمد فرمان، پروفیسر، انکار حدیث ایک فتنہ ایک سازش، گجرات، مکتبہ مجددیہ نور پور شرقی، ۱۹۶۴ء ص۲۰۹