کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 274
یہ لوگ حدیث کے منکر ہوجاتے ہیں ۔ چونکہ قرآن مجید میں احکام کی تفصیلات مذکور نہیں ہیں اس لئے آزادی کا راستہ نکالنے کے لئے بار بار یوں کہتے ہیں کہ فلاں بات قرآن میں دکھاؤ۔‘‘[1] 2. کم علمی اور جہالت : برصغیر کے منکرین حدیث کے لٹریچر کے مطالعہ اور حدیث کے بارے میں ان کے خود ساختہ اور من گھڑت شبہات اور اعتراضات کو دیکھ کر اس چیز کااندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ وہ نہ تو علم حدیث پر عبور رکھتے ہیں اور نہ ہی علومِ قرآنی کی گہرائیوں سے واقف ہیں ۔ چونکہ قرآن وسنت اور ان کے مستند مآخذتک منکرین ِحدیث کی رسائی نہیں لہٰذا ان کی توجیہ بھی ان کے بس کاروگ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرنے لگتے ہیں ۔ منکرین حدیث کا نامکمل مطالعہ اور جہالت کوبیان کرتے ہوئے پیر محمد کرم شاہ ازہری لکھتے ہیں : ’’جہاں تک میں نے معترضین حدیث کی مشکلات کا اندازہ لگایا ہے، میں ا س نتیجہ پرپہنچا ہوں کہ ان کا مطالعہ صرف چند نامکمل تراجم کتب ِحدیث تک محدود ہوتا ہے۔ وہ ان اُصولوں سے بے خبر ہوتے ہیں جن سے کسی حدیث کی فقہی اور قانونی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ وہ اس سے قطعی ناواقف ہوتے ہیں کہ اس حدیث سے جو حکم ثابت ہے، وہ فرض ہے، سنت ہے، جائز ہے یا مباح ہے بلکہ انہوں نے تو احکام کے اس فرق کو جاننے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی اور پھر بے چارے وہم وگمان کی بھول بھلیوں میں بھٹکنے لگتے ہیں اور اسی طرح اپنے خود ساختہ اوہام میں غلطاں و پیچاں رہتے ہیں ۔ اس وجہ سے بعض تو اپنا دماغی توازن کھو بیٹھتے ہیں اور حدیث پربے جا اعتراض کرنے لگتے ہیں ۔‘‘ [2] مولانا محمد قطب الدین انکارِ حدیث کے اسباب کی تفصیل میں بیان کرتے ہیں کہ ’’انکارِ حدیث کا سب سے پہلا اور بنیادی سبب یہ ہے کہ منکرین حدیث راسخ فی علم القرآن ہی نہیں ، وہ علم حدیث پر بھی مکمل عبور نہیں رکھتے اور حدیث کی مختلف انواع و اقسام اور راویوں سے متعلق فن ِتنقید و تحقیق سے بے خبر واقع ہوئے ہیں ۔ ان میں تطبیق ِآیات و احادیث کا فن بھی مفقود ہے جس کے لئے مسلسل اور عمیق مطالعہ کی ضرورت ہے اور جس کے بغیر احادیث ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح عظمت وافادیت واضح نہیں ہوسکتی۔‘‘ [3] منکرین ِحدیث کی جہالت اور اس کی بنیاد پرانکارِ حدیث کو بیان کرتے ہوئے شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی رقم طراز ہیں : ’’انکارِ حدیث احساسِ کمتری کی پیداوار ہے جس نے گریز پائی کی صورت اختیار کرلی ہے۔ جب یہ حضرات کسی مخالف کا اعتراض سنتے ہیں تو چونکہ یہ قرآن و سنت اور اس کے مستند مآخذ سے واقف نہیں اور اس کی توجیہ سے ان کا ذہن قاصر ہوتا ہے، اس لئے بھاگنا شروع کردیتے ہیں جس کی صورت یہی ہوسکتی ہے کہ نصوص کا انکار کردیں اور احادیث کے متعلق تو وہ یہ ہتھیار استعمال کرتے
[1] محمد عاشق الٰہی، مفتی، فتنہ انکار حدیث اور اس کا پس منظر، لاہور ادارہ اسلامیات، ۱۹۸۶ء ص ۹ [2] ازہری، محمد کرم شاہ، سنت خیرالانام، لاہور، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، ۱۹۵۳ء ص ۱۷۹ [3] محمد قطب الدین، مولانا، مظاہر حق اردو ترجمہ مشکوٰۃ شریف، لاہور، ۱۹۶۶ء ، ج، دیباچہ کتاب