کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 273
’’انکارِ حدیث کی یہ و جہ نہیں کہ حدیث ہم تک معتبر ذریعہ سے نہیں پہنچی بلکہ انکارِ حدیث کی اصل وجہ یہ ہے کہ طبیعت میں آزادی ہے، یہ آزاد رہنا چاہتی ہے۔ نفس یورپ کی تہذیب اور تمدن پر عاشق اور فریفتہ ہے اور انبیاء ومرسلین کے تمدن سے نفور اور بیزار ہے، کیونکہ شریعت ِغراء اور ملت بیضاء اور احادیث ِنبویہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سنن ِمصطفویہ صلی اللہ علیہ وسلم قدم قدم پر شہواتِ نفس میں مزاحم ہیں ۔ حضرات انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا اوّلین مقصد نفسانی خواہشوں کا کچلنا اور پامال کرنا تھا۔ اس لئے کہ شہوتوں کو آزادی دینے سے دین اور دنیا دونوں ہی تباہ ہو جاتے ہیں ۔ اس لیے منکرین حدیث نے ان دو متضاد راہوں میں تطبیق کی ایک نئی راہ نکالی، وہ یہ کہ حدیث کا تو انکار کر دیا جائے جو ہماری آزادی میں سد ِراہ ہے۔ اور مسلمان کہلانے کے لیے قرآنِ کریم کا اقرار کر لیا جائے کیونکہ قرآن کریم ایک اُصولی اور قانونی کتاب ہے۔ اس کی حیثیت ایک دستورِ اساسی کی ہے کہ جو زیادہ تر اُصول وکلیات پر مشتمل ہے ۔ جس میں ایجاز اور اجمال کی و جہ سے تاویل کی گنجائش ہے اور احادیث ِنبویہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اقوالِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں ان اصول اور کلیات کی شرح اور تفصیل ہے، اس میں تاویل کی گنجائش نہیں ۔ اس لیے اس گروہ نے حدیث ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا تو انکارکردیا اور مسلمان کہلانے کے لیے قرآنِ کریم کو مان لیا اور اس کے مجملات اور موجز کلمات میں ایسی من مانی تاویلیں کیں کہ جس سے ان کے اسلام اور یورپ کے کفر اور الحاد میں کوئی منافات ہی نہ رہی۔‘‘ وذلک غاية طلبعهم ونهياية طربهم [1] خواہشات کی پیروی حدیث کی مخالفت کا ایک بنیادی سبب ہے، اس حقیقت کو مولانا محمد سرفراز یوں بیان کرتے ہیں : ’’اور یہ ایک خالص حقیقت ہے کہ حدیث کی مخالفت آج وہ لوگ کررہے ہیں جو دراصل اسلامی تہذیب وتمدن کے عادلانہ نظام کویکسر توڑنا چاہتے ہیں ، کیونکہ وہ اس کی تشریح ہے اور تعینات کی حدود میں ، اپنی اَہوا اور خواہشات کی پیروی کے لیے وہ قطعا کوئی گنجائش نہیں پاتے۔ لہٰذا انہوں نے یہ مسلک اختیار کیا ہے کہ اس چیز ہی کو اصل سے مٹا دیا جائے جو مکمل طور پر اسلام کے عادلانہ نظام کی تشریح اور حد بندی کرتی ہے۔ تا کہ وہ آزاد ہو جائیں اور اسلام کے ڈھانچے پر جس قدر اور جس طرح چاہیں ، گوشت پوست چڑھائیں اور جس طرح چاہیں اپنے خود ساختہ اسلام کی شکل بنا لیں ۔‘‘ [2] ایسے لوگوں کے بارے میں مولانا محمد عاشق الٰہی رقم طراز ہیں : ’’قرآن حکیم میں اوامر و نواہی ہیں جن میں بہت سے احکام ایسے ہیں جن کا اجمالی حکم قرآن میں دے دیا گیا اور ان پر عمل کرنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرنے کا حکم دے دیا گیا۔ ان احکام کی تفصیلات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائیں ۔ جو لوگ آزاد منش ہیں ، اعمال کی بندش میں آنے کو تیار نہیں ، ان کا نفس زندگی کے شعبوں میں اسلام کو اپنانے کے لئے تیار نہیں ۔ لہٰذا
[1] محمد ادریس کاندھلوی،’حجیت حدیث‘ لاہور ، ۱۹۵۲ء صفحہ ۱۶ [2] محمد صفدر سرفراز خان ، شوقِ حدیث، حصہ اول گوجرانوالہ گکھڑ، انجمن اسلامیہ ، ۱۹۸۲ء ، صفحہ۹