کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 272
جید علماء کرام اور محققین اسلام اس فتنہ کے مضمرات کو بھانپ گئے۔ لہٰذا ان کو اس کے انسداد کی سخت فکر دامن گیر ہوئی۔ اس بارے میں علماء ِکرام کی فکرمندی کا اندازہ شاہ محمد عزالدین میاں پھلواروی کے اس بیان سے سے لگایا جاسکتا ہے : ’’انکارِ حدیث کا جو فتنہ اپنی پوری طاقت کے ساتھ اُمڈا چلا آتا ہے۔ وہ کس طرح خرمن دین وایمان پر بجلیاں گرا رہا ہے۔ آج اس فتنہ کا انسداد اسی طرح ہوسکتا ہے کہ دنیا کے سامنے حدیث رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح اہمیت کو پوری طرح واضح کیا جائے۔‘‘[1] چنانچہ دیگر فتنوں کی طرح انکارِ حدیث کے فتنہ کے خلاف برصغیر کے علماء کرام نے بیسیوں کتب لکھیں ، جن میں نہ صرف حجیت ِحدیث کو قرآن و حدیث اور عقلی دلائل سے ثابت کیا گیا بلکہ منکرین حدیث کے شبہات و اعتراضات کا مضبوط دلائل کے ساتھ ردّ پیش کیا گیا۔ مختلف دینی رسائل و جرائد نے اس فتنہ کے خلاف خصوصی نمبر شائع کئے، تحریری مواد کے علاوہ منکرین حدیث کے ساتھ علمی مناظرے بھی کئے گئے اور دینی اجتماعات میں بھی عوام الناس کو فتنۂ انکار حدیث کے عواقب و مضمرات سے آگاہ کیا گیا۔ چنانچہ تحریری و تقریری کاوشوں نے منکرین حدیث کی کمر توڑ دی۔ انکار حدیث کے اسباب صاحبانِ فکر ونظر کے لئے اس امر کا مطالعہ بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ اس جدید انکار حدیث کی وجوہات کیا تھیں ، برصغیر میں اس فتنے کے اُٹھنے کے اسباب داخلی بھی تھے اور خارجی بھی… جن کی تفصیل درج ذیل ہے : انکار ِحدیث کے داخلی اسباب 1.خواہشاتِ نفس کی پیروی : دین اسلام میں داخل ہونے کے بعد مسلمان کو اسلام پابند کرتا ہے کہ وہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے آزاداور خود مختار نہیں بلکہ مکمل طور پر قرآن وحدیث کے احکامات کا پابند ہے۔ یہ پابندی طبیعت میں آزادی رکھنے والوں اور خواہشات کی پیروی کرنے والوں پر گراں گزرتی ہے۔ احادیث ِنبویہ صلی اللہ علیہ وسلم جو قرآن مجید کے اُصول اور کلیات کی تفصیل ہیں ، قدم قدم پر خواہشاتِ نفسانیہ کی پیروی میں رکاوٹ ہیں ۔ نیز ان میں تاویل کی گنجائش بھی نہیں ہے۔ جب کہ خواہشات نفس کی پیروی کرنے والے اپنے آپ کو ’مسلمان‘ بھی کہلانا چاہتے ہیں اوران پابندیوں سے آزادی کے طلب گار بھی ہیں ، لہٰذا احادیث کاانکار کردیا گیا اور مسلمان کہلانے کے لئے قرآنِ حکیم کو مانتے رہے۔ اس ضمن میں مولانا محمد ادریس کاندھلوی ’انکارِ حدیث کی اصل و جہ‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں :
[1] پھلواروی، شاہ محمد عزالدین، علوم الحدیث، لاہور ، ۱۹۳۵ء ص۶