کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 271
’’دشمنانِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد صرف انکارِ حدیث تک محدود نہیں بلکہ یہ لوگ (علہیم ما علیہم) اسلام کے سارے نظام کو مخدوش کرکے ہر امر و نہی سے آزاد رہنا چاہتے ہیں ۔ نمازوں کے اوقاتِ خمسہ، تعدادِ رکعات، فرائض و واجبات کی تفاصیل، صوم و زکوٰۃ کے مفصل احکام، حج کے مناسک، قربانی، بیع و شرا، امورِ خانہ داری، ازدواجی معاملات اور معاشرت کے قوانین، ان سب اُمور کی تفصیل حدیث ہی سے ثابت ہے، قرآن میں ہر چیز کا بیان اجمالاً ہے جس کی تشریح اور تفصیل حدیث میں ہے۔‘‘[1] مولانا عبدالجبار عمرپوری نے ’حدیث ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں شبہات اور ان کا ازالہ‘ کے عنوان کے تحت برصغیر کے منکرین حدیث کے اصل مقصد کو بیان کیا ہے، وہ تحریر کرتے ہیں : ’’کفار و مشرکین اور یہود و نصاریٰ کی ذہنیت اور اعمال حیرت کے لائق نہیں کیونکہ وہ قرآن کے منکر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منحرف اور ضروریاتِ دین سے برگشتہ ہیں ۔ لیکن سخت افسوس ان ظالموں کی حالت پر ہے کہ زبان سے کلمہ شہادت پڑھتے ہیں اور توحید و رسالت کا اقرار کرتے ہیں اور اسلام کو صحیح و راست کہتے ہیں اور باایں ہمہ اسلام کے اجزاء و ارکان کو منہدم کرنا چاہتے ہیں ۔‘‘[2] انکارِ حدیث صرف یہ نہیں کہ حدیث کو حجت ِشرعی اور شریعت ِاسلامیہ کا ماخذ ماننے سے انکار کیا جائے بلکہ احادیث کو مشکوک بنانا، اسلاف کی روش سے ہٹ کر اپنی خواہش ِنفس سے احادیث سے مسائل کا استنباط کرنا، مستند احادیث کی صحت سے انکار کرنا اور حدیث کے معانی و مفاہیم کی غلط تاویلیں پیش کرنا بھی انکارِ حدیث کی مختلف صورتیں ہیں ۔ برصغیر کے منکرین ِحدیث نے حدیث کے بارے میں جو شبہات واعتراضات پیش کئے ہیں ، ان میں انکارِ حدیث کی مندرجہ بالا صورتیں واضح طور پر پائی جاتی ہیں ۔ انکارِ حدیث کے فتنہ کے یہ علمبردار حدیث کو مشکوک بنانے اور اس سے دامن چھڑانے کے لئے اس قسم کے شبہات پیش کرتے ہیں کہ احادیث، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو ڈھائی سو سال بعد تحریری شکل میں مرتب ہوئیں ، اس لئے قابل اعتبار نہیں ہیں؛احادیث باہم متعارض ہیں ؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتابت ِحدیث سے منع فرما دیا تھا؛ اکثر حدیثیں خبر واحد کے درجہ کی ہیں ؛ قرآن مجید جو جامع اور کامل کتاب ہے، اس کی موجودگی میں حدیث کی ضرورت باقی نہیں رہتی ہے اور اگر حدیث حجت ِشرعی ہوتی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم احادیث کو اسی اہتمام سے لکھواتے جس اہتمام سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید لکھوایا تھا، وغیرہ۔ حدیث ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں منکرین حدیث نے اپنے مذکورہ بے بنیاد اور من گھڑت شبہات کو ثابت کرنے کے لئے تصنیف و تالیف کابہت بڑا دفتر کھولا۔[3]اور اپنے مشن میں ہمہ تن مصروف ہوگئے۔ مگر تیرہویں صدی ہجری میں برصغیر پاک و ہند میں انکارِ حدیث کے اس فتنے کے اٹھتے ہی اس خطے کے
[1] رشیداحمد، مفتی، مولانا، فتنہ انکار حدیث، کراچی کتب خانہ مظہری، گلشن اقبال، ۱۴۰۳ھ، ص ۱۰ [2] عبدالغفار حسن، مولانا، عظمت ِحدیث، مقالات مولانا عبدالجبار عمرپوری، اسلام آباد، دارالعلم، ۱۹۸۹ء ص۴۹ [3] منکرین حدیث کے مبنی برانکار حدیث لٹریچر کی تفصیل بوجہ طوالت پیش نہیں کی جاسکتی۔ چند کتب کے نام درج کئے جارہے ہیں مثلاً عبداللہ چکڑالوی کا ترجمہ قرآن بآیات القرآن، غلام احمد پرویز کا رسالہ طلوعِ اسلام، عبداللہ چکڑالوی کا رسالہ اشاعۃ القرآن اور صلوٰۃ القرآن، سرسید احمد خان کی تصنیف خطباتِ احمدیہ، اور مقالات جیراج پوری وغیرہ۔