کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 270
تجزیہ سے اس امر کی وضاحت ہورہی ہے کہ سرسیداحمد خان اور مولوی چراغ علی نے انکار حدیث کے نظریہ کو علیٰ الاعلان اور بوضاحت پیش نہیں کیا بلکہ جہاں کوئی حدیث اپنے مدعا کے خلاف دیکھی، اس کی صحت سے انکار کردیا خواہ اس کی سند کتنی ہی قوی کیوں نہ ہو۔ مزید یہ کہ بعض مقامات پر اپنے لئے مفید مطلب احادیث سے استدلال بھی کرتے رہے۔ خود سرسیداحمد خان حدیث کی عزت و احترام بھی کرتے تھے اور واقعاتِ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح ثبوت کتب ِاحادیث سے دیتے تھے۔ انہوں نے تمام احادیث کی صحت کا انکار نہیں کیا۔ البتہ احادیث کی صحت کے بارے میں ان کا اپنا ایک خود ساختہ معیار ہے، چنانچہ سرسید لکھتے ہیں : ’’جناب سید الحاج مجھ پر اتہام فرماتے ہیں کہ میں کل احادیث کی صحت کا انکارکرتا ہوں ۔ لاحول ولا قوة الا باللَّه العلی العظيم یہ محض میری نسبت غلط اتہام ہے۔ میں خود بیسیوں حدیثوں سے جو میرے نزدیک روایتاً و درایتاً صحیح ہوتی ہیں ، استدلال کرتا ہوں ۔‘‘[1] محققین علماء ِکرام کی مذکورہ آرا کے مطابق عبداللہ چکڑالوی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے برصغیر میں کھل کر حدیث کا انکار کیا اور فرقہ ’اہل قرآن‘کی بنیاد رکھی ہے۔ ا س کے بعد مولوی احمد الدین امرتسری نے انکارِ حدیث کے فتنے کا بیڑا اٹھایا۔ اور حافظ اسلم جیراج پوری نے اس نظریہ کو مزید آگے بڑھایا۔ آخر میں غلام احمد پرویز نے انکارِ حدیث کو ایک منظم نظریہ اور مکتب ِفکر کی صورت میں پیش کیا۔ برصغیر میں انکار حدیث کے علمبرداروں میں مولوی محب الحق عظیم آبادی، تمنا عمادی، قمر الدین قمر، نیاز فتح پوری، سیدمقبول احمد، علامہ مشرقی، حشمت علی لاہوری، مستری محمد رمضان گوجرانوالہ، محبوب شاہ گوجرانوالہ، خدا بخش، سیدعمرشاہ گجراتی اور سید رفیع الدین ملتانی بھی شامل ہیں ۔[2] ڈاکٹر غلام جیلانی برق بھی انکارِ حدیث کے مرتکب ہوئے مگر بعد ازاں انہوں نے نہ صرف رجوع کرلیا بلکہ تاریخ ِحدیث پر ایک مدلل کتاب بھی تالیف کی۔[3] انکارِ حدیث…دین سے انحراف کی روش دوسری صدی ہجری کے منکرین حدیث اور تیرہویں صدی ہجری کے منکرین حدیث کے انکارِ حدیث کے سلسلے میں اغراض و مقاصد، حدیث کے بارے میں شبہات و اعتراضات اور انکارِ حدیث پر مبنی دلائل مختلف ہیں ۔ شاید قدیم منکرین حدیث، دین سے مکمل آزادی نہیں چاہتے تھے۔ لیکن برصغیر کے منکرین حدیث کی تحریروں سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ ان کے انکارِ حدیث کے موقف کے پس پردہ وہ عزائم ہیں جن سے ان کا مقصود الحاد و لادینیت کا فروغ اور دین سے چھٹکارا اور آزادی حاصل کرنا ہے، ان کے ناپاک عزائم پر تبصرہ کرتے ہوئے مفتی رشید احمد لکھتے ہیں :
[1] پانی پتی، محمد اسماعیل، مقالات سرسید، لاہور مجلس ترقی ادب، ج۱۳، ص۱۷ [2] انکار حدیث کے ان علمبرداروں کے نام درج ذیل وہ کتب سے ماخوذ ہیں ۔i۔ کیلانی، عبدالرحمن، آئینہ پرویزیت، لاہور مکتبہ السلام، ۱۹۸۷ء ص۱۰۱ ii۔ محمد فرمان، پروفیسر، انکار حدیث ایک فتنہ ایک سازش، گجرات، ۱۹۶۴ء ص ۱۷۸۔۱۷۹ [3] برق، غلام جیلانی، ڈاکٹر، تاریخ حدیث، لاہور مکتبہ رشیدیہ لمیٹڈ، ۱۹۸۸ء