کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 268
اس سلسلے میں محققین علماء کرام نے بہت کچھ لکھا ہے۔ ان میں سے بعض کی آرا ذیل میں پیش کی جاتی ہیں : مولانا ثناء اللہ امرتسری …جو حجیت ِحدیث پر علمی و تحقیقی کام اور منکرین حدیث سے مختلف مناظروں کے حوالے سے کافی شہرت رکھتے ہیں … ہندوستان میں انکارِ حدیث کی آواز اٹھانے والوں کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ہندوستان میں سب سے پہلے سرسیداحمد خان علی گڑھی نے حدیث کی حجیت سے انکار کی آواز اٹھائی۔ ان کے بعد پنجاب میں مولوی عبداللہ چکڑالوی مقیم لاہور نے ان کا تتبع کیا بلکہ سرسید مرحوم سے ایک قدم آگے بڑھے۔ کیونکہ سرسید حدیث کو شرعی حجت نہ جانتے تھے لیکن عزت واحترام کرتے تھے۔ واقعاتِ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح ثبوت کتب ِاحادیث سے دیتے تھے۔ برخلاف ان کے مولوی عبداللہ چکڑالوی حدیث ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو ’لہو الحدیث‘ سے موسوم کیا کرتے۔‘‘[1] فتنۂ انکارِ حدیث کی تاریخ مولانا محمد تقی عثمانی یوں بیان کرتے ہیں : ’’یہ آواز ہندوستان میں سب سے پہلے سرسیداحمدخان اور ان کے رفیق مولوی چراغ علی نے بلند کی، لیکن انہوں نے انکارِ حدیث کے نظریہ کو علیٰ الاعلان اور بوضاحت پیش کرنے کی بجائے یہ طریقہ اختیار کیا کہ جہاں کوئی حدیث اپنے مدعا کے خلاف نظر آئی، اس کی صحت سے انکار کردیا خواہ اس کی سند کتنی ہی قوی کیوں نہ ہو۔ اور ساتھ ہی کہیں کہیں اس بات کا بھی اظہار کیا جاتا رہا کہ یہ احادیث موجودہ دور میں حجت نہیں ہونی چاہئیں اور اس کے ساتھ بعض مقامات پر مفید ِمطلب احادیث سے استدلال بھی کیا جاتا رہا۔ اسی ذریعہ سے تجارتی سود کو حلال کیا گیا، معجزات کا انکار کیا گیا، پردہ کا انکار کیا گیا اور بہت سے مغربی نظریات کو سند ِجواز دی گئی۔ ان کے بعد نظریۂ انکارِ حدیث میں اور ترقی ہوئی اور یہ نظریہ کسی قدر منظم طور پر عبداللہ چکڑالوی کی قیادت میں آگے بڑھا اور یہ ایک فرقہ کا بانی تھا، جو اپنے آپ کو ’اہل قرآن‘ کہتا تھا۔ اس کا مقصد حدیث سے کلیتاً انکار کرنا تھا، اس کے بعد جیراج پوری نے اہل قرآن سے ہٹ کر اس نظریہ کو اور آگے بڑھایا، یہاں تک کہ پرویز غلام احمد نے اس فتنہ کی باگ دوڑ سنبھالی اور اسے منظم نظریہ اور مکتب ِفکر کی شکل دے دی۔ نوجوانوں کے لئے اس کی تحریر میں بڑی کشش تھی، اس لئے اس کے زمانہ میں یہ فتنہ سب سے زیادہ پھیلا۔‘‘[2] برصغیر میں منکرین حدیث کے سلسلوں کو تاریخی ترتیب سے بیان کرتے ہوئے مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں : ’’اس طرح فنا کے گھاٹ اتر کر یہ انکارِ سنت کا فتنہ کئی صدیوں تک اپنی شمشان بھومی میں پڑا رہا یہاں تک کہ تیرہویں صدی ہجری (انیسویں صدی عیسوی) میں پھر جی اٹھا۔ اس نے پہلا جنم عراق میں لیا تھا، اب دوسرا جنم اس نے ہندوستان میں لیا۔ یہاں اس کی ابتدا کرنے والے
[1] امرتسری، ثناء اللہ، مولانا، حجیت حدیث اور اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، ہندوستان، امرتسری کتب خانہ ثنائیہ، ۱۹۲۹ء ص۱ [2] عثمانی، محمد تقی، مولانا، درس ترمذی، کراچی مکتبہ دارالعلوم کراچی، ۱۹۸۰ء ص۲۶