کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 267
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت حائل تھی ۔ چنانچہ انہوں نے حدیث کی حجیت سے انکار کردیا۔ خوارج اور معتزلہ کے اغراض ومقاصد اور ان کی ٹیکنیک بیان کرتے ہوئے مولانا ابو الاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ’’ان دونوں فتنوں کی غرض اور ان کی ٹیکنیک مشترک تھی۔ ان کی غرض یہ تھی کہ قرآن کو اس کے لانے والے کی قومی وعملی تشریح وتوضیح سے اور اس نظامِ فکرو عمل سے جو خدا کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رہنمائی میں قائم کردیا تھا، الگ کر کے مجرد ایک کتاب کی حیثیت سے لے لیا جائے او رپھر اس کی من مانی تاویلات کر کے ایک دوسرانظام بنا ڈالا جائے جس پر اسلام کا لیبل چسپاں ہو۔ اس غرض کے لئے جو ٹیکنیک انہوں نے اختیار کی، اس کے دو حربے تھے: ایک یہ کہ حدیث کے بارے میں یہ شک دلوں میں ڈالا جائے کہ وہ فی الواقع حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیں بھی یا نہیں ؟ دوسرے ،یہ کہ اصولی سوال اٹھا دیا جائے کہ کوئی قول یا فعل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہو بھی تو ہم اس کی اطاعت واتباع کے پابند کب ہیں ؟ ان کانقطہ نظریہ تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم تک قرآن پہنچانے کے لئے مامور کئے گئے تھے۔ سو انہوں نے وہ پہنچا دیا اس کے بعد محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم ویسے ہی ایک انسان تھے، جیسے ہم ہیں ۔ انہوں نے جو کچھ کہا اور کیا، وہ ہمارے لئے حجت کیسے ہو سکتا ہے؟ ‘‘[1] خوارج اور معتزلہ کے فتنے زیادہ وقت نہ چل سکے اور تیسری صدی کے بعد تو مکمل طور پر مٹ گئے۔ ان فتنوں کے زوال کے مختلف اسباب تھے جن میں ایک اہم سبب یہ تھا کہ فتنہ کی تردید میں وسیع تحقیقی کام کیا گیا۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے ’الرسالہ‘ اور ’کتاب الامّ ‘ میں اس فتنہ کا ردّ پیش کیا… امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے مستقل ایک جز تصنیف کیا جس میں اطاعت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اثبات کے ساتھ ساتھ قرآن وحدیث کی روشنی میں منکرین حدیث کے نظریات کی تردید کی گئی… حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے ’اعلام الموقعین‘ میں اس کے ایک حصہ کو نقل کیا ہے… بعد ازاں امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے ’المستصفی‘، ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے ’الاحکام‘ اور حافظ محمد بن ابراہیم الوزیر نے ’الروض الباسم‘ میں اس فتنہ کے ردّ میں دلائل دئیے۔ دوسری صدی ہجری کے بعد صدیوں تک اسلامی دنیا میں کہیں بھی انکارِ حدیث کی کوئی تحریک نہیں اُٹھی اور یہ فتنہ مکمل طور پر ختم ہو گیا ۔ تیرہویں صدی ہجری (اُنیسویں صدی عیسویں )میں انکارِ حدیث کافتنہ دوبارہ اُٹھا۔ انکارِ حدیث کے پہلے فتنے کامرکز عراق تھا جب کہ تیرھویں صدی ہجری میں اس فتنے نے برصغیر ہندوپاک میں سر اٹھایا ۔ فتنہ انکار حدیث کا برصغیر میں آغاز تیرہویں صدی ہجری (انیسویں صدی عیسوی) میں برصغیر میں انکار حدیث کی ابتدا کن لوگوں نے کی؟ منکرین حدیث کے مشہور سلسلے کون کون سے ہیں ؟ نیز فتنہ انکار حدیث کو کن لوگوں نے فروغ دیا؟
[1] مودودی ،سیدابو الاعلیٰ ، سنت کی آئینی حیثیت ، لاہور اسلامک پبلیکشنز لمیٹڈ ۱۹۶۳ء ،ص ۱۴