کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 266
خوارج اور معتزلہ کا انکارِ حدیث پہلی صدی ہجری تک قرآن مجید کے ساتھ ساتھ احادیث ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو متفقہ طور پر حجت ِشرعی تسلیم کیا جاتارہا۔ انکارِ حدیث کے فتنہ کا آغاز سب سے پہلے دوسری صدی ہجری میں ہوا۔ اس فتنہ کی ابتدا کرنے والے خوارج اور معتزلہ تھے ۔ حافظ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ’’اہل سنت ،خوارج ،شیعہ ، قدریہ، تمام فرقے آں حضرت کی ان احادیث کو جو ثقہ راویوں سے منقول ہوں ، برابر قابل حجت سمجھتے رہے ۔ یہاں تک کہ پہلی صدی کے بعد متکلمین معتزلہ آئے اور انہوں نے اس اجماع سے اختلاف کیا ۔ [1] محمد نجم الغنی ’معتزلہ‘ کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے ہیں : ’’وجہ تسمیہ یہ ہے کہ جب حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کو یہ خبر پہنچی کہ مسلمانوں میں ایک جماعت ایسی پیدا ہوئی ہے، جو کہتی ہے کہ مرتکب ِکبیرہ نہ بالکل مؤمن ہے اور نہ بالکل کافر ہے بلکہ وہ ایک منزل میں ہے، درمیان منزل ایمان وکفر کے۔ تو انہوں نے کہا : ہؤلاء اعتزلوا یعنی یہ لوگ کنارہ کش ہو گئے اجماعِ اسلام سے ۔ تب وہ فرقہ ’معتزلہ‘ کہلانے لگا …‘‘[2] ’خوارج‘ انکارِ حدیث کے فتنہ کے بانی ہیں ۔ انہوں نے اپنے عقائد کی بنیاد ہی اس بات پر رکھی کہ وہ اس چیزکو اختیار کریں گے جو قرآن سے ملے گی۔ مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی خوارج کے اعتقادات بیان کرتے ہوئے ’خوارج اور انکار ِحدیث ‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں : ’’انکارِ حدیث کے فتنہ کی بنیاد سب سے پہلے خوارج نے رکھی۔کیونکہ ان کے عقائد کی بنیاد ہی اس پر تھی کہ جو بات قرآن سے ملے گی، اسے اختیار کریں گے۔ چنانچہ ان کے یہاں بڑی حدتک احادیث کا انکار پایاجاتا ہے۔ اور اسی انکارِ حدیث کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے رجم کے شرعی حد ہونے سے انکار ہی اس بنا پر کیا کہ قرآن کریم میں اس کا ذکر نہیں ہے ۔ اور احادیث کو وہ نہیں مانتے اور بعض لوگوں نے خوارج کی تکفیر ہی اس رجم کے انکار کی وجہ سے کی ہے۔‘‘[3] امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ خوارج اور معتزلہ کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’تمام معتزلہ اور خوارج کا مسلک ہے کہ خبر واحد موجب ِعلم نہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ جس خبر میں جھوٹ یا غلطی کا اِمکان ہو، اس سے اللہ تعالیٰ کے دین میں کوئی بھی حکم ثابت کرنا جائز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی اس کی نسبت اللہ کی طرف کی جاسکتی ہے اور نہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف۔‘‘ [4] خوارج کی طرف سے انکارِ حدیث کی وجہ ان کے انتہا پسند انہ نظریات او رمقاصد تھے جو سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں پایۂ تکمیل کو نہ پہنچ سکتے تھے۔ جب کہ معتزلہ نے یونانی فلسفوں سے متاثر ہو کر عقل کو فیصلہ کن حیثیت دی اور اسلام کے ا حکامات کو عقلی تقاضوں کے مطابق بنانے کی کوشش کی مگر اس رستے میں
[1] ابن حزم ، امام ، ابو محمد علی بن احمد ، الاحکام فی اصول الاحکام ، مصر مکتبۃ الخانجی، شارع عبدالعزیز ، ۱۹۲۰ء جلد ۱ ص ۱۱۴ [2] نجم الغنی ،محمد ، مذاہب الاسلام ، انڈیالکھنؤ، مطبع منشی نو لکشور ، ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۰۱ [3] ولی حسن ٹونکی ، مفتی ، عظیم فتنہ ، کراچی ۱۹۸۴ء ، صفحہ ۲۲ [4] امام ابن حزم ، ابو محمد علی بن احمد ، الاحکام فی اصول الاحکام مصر مکتبہ الخانجی، شارع عبدالعزیز ، ۱۹۲۰ء ، ج ۱ ص ۱۱۹