کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 259
۲۰) مولانا ابوطاہر محمد اسحق خان (اسلامی یونیورسٹی، مدینہ منورہ) ۲۱) مولانا حافظ عبدالرشید شیخ الحدیث (دارالعلوم تقویۃ الاسلام، لاہور) ۲۲) مولانا عبدالرحمن (چیئرمین متحدہ علماء بورڈ) ۲۳) مولانا صفی الرحمن مبارکپوری (سابق امیر جماعت اہل حدیث ، ہند) ۲۴) مولانا محمد سلطان ذوق ندوی (بنگلہ دیش) ۲۵) مولانا مجاہد الاسلام (صدر اسلامی فقہ اکیڈمی، ہند) ۲۶) مولانا نعیم الحق نعیم رحمۃ اللہ علیہ (مدیر ’الاعتصام‘ دارالدعوۃ السلفیہ ، لاہور) ۲۷) مولانا حافظ محمد قاسم (شیخ الحدیث جامعہ دارالعلوم) ۲۸) مولانا محمد یٰسین صابر (شیخ الحدیث جامعہ خیر المدارس، ملتان) ۲۹) مولانا محمد اجمل قادری (مرکز خدام الدین، لاہور) ۳۰) مولانا ریاض الحسن نوری ( مشیر وفاقی شرعی عدالت ) ۳۱) مولانا حافظ عبدالرحمن مدنی (مہتمم جامعہ لاہور الاسلامیہ) ۳۲) ابوعمار زاہد الراشدی (سیکرٹری جنرل پاکستان شریعت کونسل) ۳۳) مولانا عبدالمالک (صدر جمعیت اتحاد العلمائ، منصورہ) ۳۴) حضرت قاضی عبدالکریم کلاوچی (مدرسہ عربیہ نجم المدارس) ۳۵) حضرت مولانا مفتی نور محمد و مولانا عبدالحلیم (افغانستان) ۳۶) مولانا مفتی محمد الیاس کشمیری ۳۷) فتویٰ دارالعلوم دیوبند اور کئی دیگر علمی شخصیات اور پاکستان کے معروف دینی ادارے بھی اس میں شامل ہیں ۔ ٭ اس سے قبل ۱۹۶۲ء میں بھی علماءِ کرام کی ایک اجتماعی تحریک کے نتیجہ میں غلام احمد پرویز کی کفریات پر مبنی تحریروں کی روشنی میں اس کے خلاف کفر و ارتداد کا فتویٰ مرتب کرکے توثیق وتصدیق کے لئے ملک کے طول و عرض میں تمام مکاتیب ِفکر کے تقریباً ایک ہزار علما کے پاس بھیجا گیا تھا جن میں حرمِ کعبہ اور مسجد ِنبوی کے علمائے کرام بھی شامل تھے۔ ان تمام حضرات نے متفقہ طور پر اس فتویٰ پر اجماع کیا اور اُمت کو پرویزی الحاد و زندقہ سے بچنے کی تلقین کی۔ اس دور میں غلام احمد قادیانی کے بعد غلام احمد پرویز وہ دوسری شخصیت ہے جس کے کفر پر بلا اختلاف و شک متفقہ طور پر اجماعِ امت قائم ہوا ہے جو اہل اسلام کے لئے ایک شرعی حجت ہے تاکہ وہ نہ صرف خود اس فتنہ سے اپنے ایمان و اسلام کی حفاظت کابندوبست کریں بلکہ دوسروں کوبھی اس کا شکار ہونے سے بچائیں ۔