کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 255
و تبدل کرے۔ وہ صرف اتنا کرسکتا ہے کہ یہ بتا دے کہ فلاں معاملہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ قرآن کے مطابق نہیں ۔‘‘ (ص ۲۹) یعنی مسٹر پرویز ملت ِاسلامیہ پر ایک ایسا وقت لانا چاہتے ہیں کہ اُمت کے اُمورِ شریعت: نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ وغیرہ کی جزئیات جس طریقہ پر چلی آرہی ہیں ، ان میں تغیر و تبدل کیا جائے۔ ان کے ان بلند عزائم کے باوجود ہم مسٹر پرویز کے شکرگزار ہیں کہ انہوں نے سردست کسی شخص کو یہ اجازت نہیں دی کہ ہمارے مذہبی اعمال میں مداخلت کرے۔ہمیں یقین ہے کہ عالم اسلام پر ایسی منحوس صبح کبھی طلوع نہ ہوگی جس میں کسی ایسے نظام سے دوچار ہونا پڑے جو مسلمانوں کے ہاتھ کو کتاب و سنت کے مرکزی دامن سے جدا کردے۔ اطاعت ِرسول کے معنی صرف یہ ہیں کہ ایک مسلمان قرآن و حدیث پر بیک وقت عامل ہو، اس کے علاوہ مرکز ِملت کا نہ کوئی مفہوم ہے اور نہ مسٹر پرویز خود یا ان کی نسل کبھی ایسے مرکز ملت سے دوچار ہوسکے گی جس میں نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ کا نام تو ہو لیکن اس کے ارکان موجود نہ ہوں ۔ حقیقی مرکز ِملت کیا ہے؟ جسد ِشریعت ان ہی اجزائے ترکیبی سے وجود میں آیا ہے جس کی تزئین و تشکیل جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وحی آشنا ذہن اور معجز آفرین ہاتھوں نے کی۔ خلفائے راشدین کی حیاتِ طیبہ کا تمام سرمایۂ ناز و افتخار ان ہی جزئیات کی موبمو اور ہوبہو اتباع تھی اور افرادِ ملت کی خوش بختی محض اس میں ہے کہ ہم ان ہی اسلاف کے نقوشِ قدم کی تلاش میں لگے رہیں او رجہاں جہاں ان کا قدم پڑا ہے، اسی پر قدم رکھیں ۔ مرکز ِملت وہ نہیں ہے جو اس وقت مسٹر پرویز کے ماؤف ذہن میں ہے بلکہ وہ ہے جو آج سے چودہ سو سال قبل قائم ہوا او راب تک قائم ہے اور اسی کو چمٹے رہنے اور اسی سے وابستہ رہنے کا ارشاد اس حدیث میں ہے : عليکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدين المهديين من بعدی عضوا عليها بالنواجذ وتمسکوا بها وايا کم ومحدثات الامور ’’تم پر لازم ہے کہ میرے طریقے اور میرے بعد خلفائِ راشدین مہدیین کے طریقے کی پیروی کرو اور اس کو دانتوں سے مضبوطی سے پکڑ رکھو اور اسی پر جمے رہو اور خبردار نئی باتوں سے بچتے رہنا‘‘ نئی بات جس سے بچنے کی حضور نے تاکید فرمائی ہے، یہی مرکز ملت کا ناشدنی تصور ہے جس کے نام سے بھی ملت ِاسلامیہ بلکہ ملل ِعالم ناواقف ہیں ۔ آخر میں ، اربابِ بصیرت کی خدمت میں مؤدبانہ عرض ہے کہ وہ بار بار غور کریں کہ مرکز ِملت کے اس لامرکزی تصورِ اطاعت ِرسول کی یہ منکرانہ توجیہ، دین اور مذہب کی یہ بے سبب تفریق، آیاتِ کلامِ الٰہی کی یہ معنوی تحریف اور احادیث ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم و اخبارِ صحابہ رضی اللہ عنہم سے اس استغنا میں آخر ملت ِاسلامیہ کی کون سی خدمت