کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 253
فوجی نے بشر بن ارطاۃ کی ڈھال چرالی ، پکڑا گیا۔ بشر فرماتے ہیں : لولا أنی سمعت رسول اللَّه يقول: لا تقطع الأيدی فی الغزو لقطعت يدک (ابوداود) یعنی ’’اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے یہ کہتے نہ سنا ہوتا کہ دورانِ جنگ میں ہاتھ نہ کاٹے جائیں تو میں ضرور تیرا ہاتھ کاٹ دیتا۔ ‘‘ غرض یہ حکم نیانہیں ہے۔ اگر حضرت عمر نے سابقہ حکم بدل دیا ہوتا تو اس کے بعد یہ حدود کبھی نافذ نہیں ہوتیں ۔ لیکن ان کے عہد ِحیات میں بھی یہی حدود بدستور نافذ رہیں ۔ لیکن یہ فہم علم دین حاصل کرنے کے بعد ہی آتا ہے۔ اسی طرح مؤلفۃ القلوب کی امداد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بند نہیں کی۔ آپ نے غلط سمجھا، حقیقت یہ ہے کہ مؤلفۃ القلوب کی مد سے زکوٰۃ لینے والے ہی نہ رہے۔ جیسے اِس وقت غلام اور عاملین زکوٰۃ موجود نہیں ہیں ۔ تو زکوٰۃ کی مد سے ان کودیا جانا ممکن نہیں ۔ حضرت عمر جیسے فدائی سنت پر یہ اِفترا کہ انہوں نے اللہ یا رسول کے حکم کو بدل دیا، انتہائی شرمناک جسارت ہے۔ مسٹر پرویز نے لکھا ہے کہ ’’یہ جزئیات وحی کی رو سے متعین نہیں ہوتی تھیں ۔ اگر یہ وحی کی رو سے متعین ہوتیں تو حضور کے خلفائے راشدین میں سے کسی کو بھی اس کا حق نہیں پہنچ سکتا تھا کہ ان میں کسی قسم کی تبدیلی یا حک واضافہ کرسکتا۔‘‘ ( ص۲۵) کاش مسٹر پرویز کو کوئی سمجھائے کہ کسی امر کا متعین کرنا تو بڑی بات ہے، حضور کاایک اشارۂ ابرو بھی کسی امر کے لئے ہو تو اس میں کسی قسم کی تبدیلی یا حک و اضافہ کا تصور ہی خلفائے راشدین کے لئے موت سے بدتر تھا۔ ع کار پاکان را قیاس از خود م یگر ٭ مسٹر پرویز نے حضور کے مقرر فرمودہ اُمورِ دین میں حالات کے مطابق تبدیلی کی چند اور مثالیں بھی دی ہیں مثلاً (۱) ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدیوں کا فدیہ ایک دینار فی کس مقرر کیا تھا، لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مختلف شرحیں مقرر فرمائیں ۔‘‘ … (۲) ’’ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف اجناس کی شرحِ خراج بالتفصیل مقر ر نہیں فرمائی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے متعین فرمائی۔‘‘ … (۳) ’’ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بعض مفتوحہ زمینیں مجاہدین میں تقسیم کردی گئی تھیں ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سسٹم ختم کردیا۔‘‘ … (۴) ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے وظائف مساوی مقرر فرمائے تھے حضر ت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں خدمات کے تناسب سے بدل دیا۔‘‘ … (۵) ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تجارتی گھوڑوں اور سمندروں سے برآمد شدہ اشیا پر زکوٰۃ نہیں لی جاتی تھی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان پر زکوٰۃ قائم کی۔‘‘ لیکن ان میں سے کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نہیں جسے حضور کی متعین فرمودہ باتوں میں سے کسی میں تبدیلی کہا جاسکے۔ ان میں یا تو کذب بیانی ہے یا غلط فہمی ہے اور یا پھر ابلہ فریبی سے کام لیا گیا ہے مثلاً حضور کا فدیہ کی مقدار ایک دینار مقرر کرنا جھوٹ ہے۔ حضور نے تو بعض اوقات فدیہ کے لئے کوئی رقم رکھی