کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 252
’’جن اُمور کی قرآن نے اجازت دی ہوئی ہے (اس فقرہ کے اَدبی محاسن کوبھی پیش نظر رکھئے گا) اگر حالات کا تقاضا ہو تو مرکز ِملت انہیں وقتی طور پر بند بھی کرسکتا ہے۔‘‘ (ص۲۵) قرآن کے حکم میں تبدیلی کی ایک اور مثال یہ دی ہے کہ ’’حضور کے زمانے میں مؤلفۃ القلوب کو صدقات کی مد سے اِمداد دی جاتی تھی، حضرت عمر نے اپنے زمانے میں اسے ختم کردیا۔‘‘ (ص۲۴) اسی سلسلہ میں انہوں نے لکھا ہے: ’’یہ جزئیات وحی کی رو سے متعین نہیں ہوتی تھیں ۔ اس باب میں حضور کو صحابہ سے مشورہ لینے کا حکم تھا۔‘‘ (ص۲۵) سوال یہ ہے کہ کیا مسٹر پرویز اور ان کے تمام جماعتی مل کربھی بتا سکتے ہیں کہ حضور نے یہ تمام جزئیات کس کے حکم سے متعین فرمائیں ۔ کس نے مشورہ دیا کہ ایک مجلس میں تین طلاق ایک ہی طلاقِ رجعی ہوگی۔نبی اکرم نے ارتکابِ جنایات پرحد جاری کرنے اور چور کا ہاتھ کاٹنے کا فیصلہ کن کن صحابہ کے مشورہ سے کیا۔ مؤلفۃ القلوب کو زکوٰۃ دلائے جانے کے حق میں کن اصحاب نے رائے دی؟ اگر یہ تمام احکامات حضور نے مشورہ سے نہیں دیئے بلکہ یہ سب وحی کی رو سے متعین شدہ جزئیات تھیں تو اب یہی سوال میں کرتا ہوں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان تمام جزئیات میں تبدیلی کرنے کا کیا حق تھا۔ صاف کیوں نہیں کہتے کہ دراصل حضرت عمر کا نام لے کر خود قرآنی احکامات میں ردّوبدل کرنامقصود ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ قرآنی فیصلوں اور حضور کے احکامات میں کسی تبدیلی کا سوال کسی عہد میں پیدا ہی نہیں ہوا اور نہ ہوسکتا ہے۔ حضرت عمر نے ہرگز کسی جزئیہ میں تبدیلی نہیں کی بلکہ خدا اور رسول کے احکامات کی وہی تعبیر ان کے خیال میں صحیح تھی جس کا انہوں نے حکم دیا۔ اگر کسی پچھلے فیصلہ کی مخالفت انہوں نے کی ہے تو صرف اس لئے کہ اس فیصلے کو انہوں نے منشا رسول کے خلاف سمجھا۔ ان کے یا صحابہ کرام بلکہ فقہائے اُمت اور علمائے برحق میں سے کسی کے حاشیہ خیال میں یہ تصور آہی نہیں سکتا تھا کہ وہ حضور کے مقرر کردہ کسی جزئیہ کوبدل دیں ۔یہ سب عہد جدید کے مسلوب الحس اور بے رحم مدعیانِ اسلام کا ہی کام ہے کہ وہ علانیہ رسول کے فیصلہ میں تبدیلی کا پرچار کرتے ہیں اور کوئی ان سے باز پرس نہیں کرتا۔ حد کا روکنا اور قطع ید کا التوا اس قسم کے حالات کی بنا پر تھا جن میں حرام حلال ہوجاتا ہے اور وہ ﴿ لاَ يُکَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَهَا﴾ کے تحت آجاتا ہے او ریہی قرآن کا حکم ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے۔اور یہ کہنا کہ حضرت عمر نے فیصلہ دیا کہ جنگ کے دوران میں کسی پر حد جاری نہ کی جائے کذبِ صریح ہے۔ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا کہ ایامِ جنگ میں چوروں کا ہاتھ نہ کاٹا جائے۔ ایام جنگ میں ایک