کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 251
(۲) جو جزئیات پہلے متعین ہوچکی تھیں او ران میں کسی تغیر و تبدل کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی انہیں علیٰ حالہٖ قائم رکھا جاتا تھا (۳) جن جزئیات میں اقتضائے حالات کے مطابق کسی تبدیلی کی ضرورت محسوس ہوتی، اس میں تبدیلی کردی جاتی تھی۔‘‘ (ص۲۲،۲۳) ’’اگر زمانے کے تقاضے اس کے خواہاں ہوں تو نبی اکرم کے زمانے کے فیصلوں میں مناسب ردّوبدل کیا جاسکتا ہے او رایک خلیفہ کے فیصلہ کو خلیفہ مابعد بھی بدل سکتا ہے۔‘‘ ( ص۲۴) مسٹر پرویز اسی کو ’اطاعت ِرسول‘کہتے ہیں اور اسی اطاعت ِرسول کی ترغیب اس رسالہ میں دی گئی ہے۔ یعنی ایک محسوس شخصیت قائم کی جائے جو دین کیلئے نئی جزئیات متعین کرے اورحسب ِضرورت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی متعین کردہ جزئیات میں ردّوبدل کرے اور زمانہ یہی کہتا رہے کہ یہ اطاعت رسول ہو رہی ہے! ٭ اولیاتِ عمر رضی اللہ عنہ :اب مجھے صرف یہ بتانا رہ گیا ہے کہ مسٹر پرویز کا مطلب جزئیات سے کیا ہے اور زمانے کے تقاضے سے کیا مراد ہے؟ پرویز نے اگرچہ جزئیات کی تعریف نہیں بتائی، البتہ چند مثالیں ضرور دی ہیں ۔ ایک مثال یہ ہے : ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے لے کر عہد ِصدیقی تک ایک مجلس میں دی ہوئی تین طلاقوں کو ایک شمار کرکے طلاقِ رجعی قرا ردیا جاتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ میں اسے تین شمار کرکے طلاقِ مغلظ قرار دے دیا۔‘‘ (ص۲۳) اس مثال میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ قرآنِ حکیم کے کون سے اُصولی حکم کا جزئیہ ہے۔ پھر یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے لئے باہمی مشورہ کب کیا۔ حالانکہ ان کو مشورہ کرنا ضروری تھا۔ اس سلسلے میں یہ بیان کردینا ضروری ہے کہ مسٹر پرویز کو حضرت عمر کے اس فیصلے سے اختلاف ہے۔ چنانچہ یہاں پر انہوں نے صرف اتنا اشارہ کردیا ہے کہ ’’ہمیں اس وقت اس سے بحث نہیں کہ قرآن کی رو سے صحیح طلاق کی پوزیشن کیا ہے، ہم یہاں صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ حضور کے زمانے کے فیصلے حضور کے خلفا کے عہد میں بدلے جاسکتے ہیں ‘‘ ، اس سے مقصد یہ ہے کہ خلفا کو قرآن کی رو سے کسی حکم کی صحیح پوزیشن کے خلاف بھی حسب ِضرورت تبدیلی کا حق حاصل ہے۔چنانچہ اس کا ثبوت ایک اور واقعہ سے دیا گیا ہے کہ ’’حضرت عمر نے فیصلہ دیا کہ جنگ کے دوران کسی پر حد جاری نہ کی جائے اور قحط کے زمانے میں چور کا ہاتھ نہ کاٹاجائے۔‘‘ (ص۲۴) مطلب یہ نکلا ہے کہ وقت کے تقاضوں میں یہ قوت ہے کہ حد ِقرآنی ساقط ہوسکتی ہے اور قرآنی حکم کو بدلا جاسکتا ہے۔حالانکہ خود مسٹر پرویز کا کہنا ہے کہ ’’وحی کی رو سے متعین شدہ جزئیہ میں کوئی بھی تبدیلی کرنے کامجاز نہیں ۔‘‘ (ص ۲۵) باوجود اس کے ان کی رائے ہے :