کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 249
تفصیل بھی قابل ِداد ہے جو اس رسالے میں بتائی گئی ہے : ’’رسول اللہ کے ذمے اس ضمن میں دو کام تھے: ایک تو متنازعہ فیہ اُمور میں کتاب اللہ کے متعلق فیصلے کرنا اور دوسرے کتاب اللہ نے جن قوانین کو محض اُصولی طور پر بیان کیا تھا او ران کی جزئیات کو دانستہ چھوڑ دیا گیا تھا۔ تاکہ وہ بھی اصولوں کی طرح ہمیشہ کے لئے غیر متبدل نہ قرار پاجائیں ؛ اپنے خیالات کے مطابق ان کی جزئیات متعین کرنا۔‘‘ ( ص۱۵) متنازعہ اُمور کے فیصلے کی کیفیت اوپربیان ہوچکی او ریہ بھی ذکر ہوچکا کہ مسٹر پرویز کے نزدیک تمام متنازعہ امور کا فیصلہ مرکز کے باہر ماتحت افسران کیا کرتے تھے۔ اس طرح حضور کا کام صرف اپیل سننے تک تھا، وغیرہ… باقی قرآنی قوانین کے اُصول کی جزئیات کے متعلق وہ لکھتے ہیں کہ قرآن نے تو اسے دانستہ چھوڑ دیا کہ مبادا اُصول کی طرح جزئیات بھی غیر متبدل قرار نہ پاجائیں ۔ یعنی اصول غیر متبدل ہیں لیکن ان کے تحت جزئیات متبدل ہی رہیں گی۔ ٭ جزئیات سے کیا مراد ہے اور اس کے تعین کا کیا طریقہ ہے، اس کا جاننا بھی دلچسپی سے خالی نہیں ۔ لکھتے ہیں : اب رہا جزئیات کا متعین کرنا تو اس کے لئے قرآن نے حضور کو حکم دیا تھا کہ﴿وَشَاوِرْهُمْ فِیْ الاَمْرِ﴾(۵۵:۳) تم معاملات میں ان (جماعت ِمؤمنین) سے مشورہ کیا کرو۔‘‘ ( ص۱۷) اس کا مطلب یہ ہوا کہ جزئیات کا تعین بھی حضور کے اکیلے کا کام نہیں تھا بلکہ مشورہ سے ہوتا تھا چنانچہ اس کے ثبوت میں انہوں نے مشکوٰۃ کی ایک حدیث کا ترجمہ اس طرح شروع کیا ہے : ’’عبداللہ بن زید بن عبد ربہ نے کہا کہ جب رسول اللہ نے ناقوس بجانے کا حکم دیا تاکہ اسے بجا کر لوگوں کو نماز کے لئے جمع کریں تو مجھ کو خواب میں ایک شخص دکھائی دیا جس کے ہاتھ میں ناقوس تھا۔‘‘ وغیرہ (ص ۱۷) پھر بتایا گیا ہے کہ اس شخص نے خواب میں اذان کے الفاظ سکھائے اور اسی طرح رسول اللہ نے اذان دینے کا حکم دے دیا۔ راوی کا بیان ہے کہ جب عمر بن خطاب نے اذان کی آواز سنی تو انہوں نے قسم کھا کر کہا کہ میں نے بھی خواب میں ایسا ہی دیکھا ہے۔ تب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا ہی کو تعریف ہے ۔ آپ اس حدیث کو پڑھ کربتائیے کہ کیا اسی کا نام مشورہ ہے۔ اس واقعہ کے بیان کرنے اور مشورہ کی اس عجیب و غریب صورت کے پیش کرنے کی غرض یہ ہے کہ سننے والے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت کو اس بلند مقام سے جو مسلمان اب تک سمجھ رہے تھے، نیچے لاکر رسول کی ضرورت کا احساس ہی ترک کردیں ۔ پرویزی مرکز ملت میں حاکم وقت کا مقام : …چنانچہ لکھتے ہیں : ’’ظاہر ہے کہ رسول اللہ کے بعد دین کے باقی رہنے کی صورت یہی ہوسکتی تھی کہ رسول کا ایک