کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 247
نہ عقل ِسلیم کے نزدیک یہ ممکن ہے کہ خدا کا رسول غلط فیصلے کرے اور وبال کا مستوجب ہو۔ مشکل یہ ہے کہ مسٹر پرویز شاید یہ جانتے ہی نہیں کہ غلط فیصلہ کرنا کس کو کہتے ہیں ؟ حضور کی ذاتِ گرامی کا تو ذکر ہی کیا، کسی عدالت کا ایک قانون دان جج بھی غلط فیصلہ نہیں کرتا۔ ان کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ یہ بھی ممکن ہے کہ فیصلہ حق دار کے خلاف ہو اور پھر بھی جج نے فیصلہ کرنے میں غلطی نہ کی ہو کیونکہ فیصلہ کے صحیح ہونے کا انحصار اس بات پر ہے کہ فیصلہ کرنے میں قانونی مطالبات کو کہاں تک پورا کیا گیا ہے۔ چنانچہ ابن قیم نے اسی بنا پر یہ اصول اخذ کیا ہے الاحکام الظاہرہ تابعۃ للأدلۃ الظاہرۃ یعنی ظاہری احکام ظاہری دلائل کی بنا پر دیئے جائیں گے(حقیقت خواہ کچھ ہو)۔ (اعلام الموقعین:ج۳) ہماری عدالتیں بھی نافذ الوقت قوانین ِشہادت کے مطابق فیصلہ کرتی ہیں اور رسول بھی فیصلہ کے وقت خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے قانون کی پیروی کرتا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ حضور فیصلے وحی کی رو سے نہیں کرتے تھے، انتہائی بے خبری ہے۔ وحی کی رو سے فیصلے کرنے کے معنی یہ ہیں کہ ان قاعدوں کو ملحوظ رکھا جائے جو فصل ِتنازعات کے باب میں اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی خفی یا وحی جلی کے تحت رسول اللہ کوبتا دیئے۔ اس میں ذاتی بصیرت کا جہاں تک تعلق ہے وہ یہ ہے کہ رسول اللہ فصل ِتنازعات کے باب میں کسی قاعدۂ دین ِبرحق کی مراعات میں غفلت نہ فرماتے تھے۔ چنانچہ حضرت اُمّ سلمہ کی روایت جو مسٹر پرویز نے منکر حدیث ہونے کے باوجود بدیں ثبوت پیش کی ہے کہ حضور فصل معاملات میں غلطی بھی کردیتے تھے، اس میں خود یہ وضاحت ہے کہ ’’اگر میں کسی شخص کو اس کے بیان کے مطابق اس کے بھائی کا حق دے دوں تو اسے سمجھنا چاہئے کہ میں اسے آگ کاٹکڑا دے رہا ہوں ، اسے چاہئے کہ اسے نہ لے۔‘‘ اس میں فیصلے کی غلطی کا ذکر نہیں ہے بلکہ اپنی طرف سے فیصلہ صحیح کرنے کا اعلان ہے کیونکہ حضور مدعی کے بیان کے مطابق فیصلہ جبھی دیتے تھے کہ مدعا علیہ دعوے کی غلطی ثابت نہ کرسکے۔ ایسا فیصلہ تو غلط نہیں کہا جاسکتا البتہ دعویٰ ہی غلط رہا ہو تو اس کا وبال مدعی کو بھگتنا پڑے گا۔ جس کو حضور نے آگ کے ٹکڑے سے تعبیر فرمایا۔ حدیث میں ایسی صورت بھی مروی ہے کہ ارتکابِ جرم کا ذاتی علم ہونے کے باوجود شہادت کی شرعی حیثیت مکمل نہ ہونے کے باعث مجرم کو بری کردیا گیا۔ جس طرح عدالت ہائے عالیہ کے فاضل ججوں کے فرائض میں سے ہے کہ وہ ذاتی بصیرت کو ملک کے قوانین عدلیہ کی حدود سے متجاوز نہ ہونے دیں ،اسی طرح شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بھی فرض تھا کہ وہ ذاتی بصیرت کوشرعی ضوابط کی حدود سے بڑھنے نہ دیں ۔ ہائی کورٹ کے بعض فیصلوں میں آپ کو یہ بھی ملے گاکہ خود فاضل ججوں نے اظہارِ افسوس کیا ہے کہ