کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 246
کہ ﴿ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیٍ فَرُدُّوْه اِلَی اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ﴾ اگر تم میں اور اولی الامر صاحبان اور افسرانِ ماتحت میں کسی بات میں اختلاف ہوجائے تو تم ایسے معاملے کو مرکز کی طرف Refer کرو۔ وہاں سے جو فیصلہ صادر ہو، اس کی اطاعت تم پر فرض ہوجائے گی۔‘‘ غور کرتے جائیے کہ پہلے رسول کا فیصلہ مطلوب تھا، پھر رسول کے بعد ماتحت افسروں کا فیصلہ واجب تسلیم ہوا۔ پھر اختلاف کی صورت میں مرکز کا فیصلہ قطعی ہوا۔ آخر کی عبارت میں ’مرکز‘ کا لفظ رسول کی بجائے مصلحتاً استعمال کیا گیا ہے۔ آگے چل کر یہ مرکز جس کے ساتھ رسول کا تصور ہنوزباقی ہے، خالصتاً حکامِ وقت کے تصور میں بدل جائے گا۔ سائنس کی اصطلاح میں اس کو ’عمل تبخیر‘ یا ’عمل تقطیر‘ کہتے ہیں ۔ ٭ پرویزی ’مرکز ملت‘ کے فیصلوں کی حیثیت: اب اس فیصلہ کی حقیقت سنئے جس کا مرکز سے قطعی طور پر صادر ہونا اور جس کی اطاعت فرض ہونا بتایا گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ ’’حضور فیصلے وحی کی رو سے نہیں کرتے تھے__ اپنی ذاتی بصیرت کے مطابق کیا کرتے تھے__ ان میں اس کا بھی امکان تھا کہ حق دار کے خلاف فیصلہ صادر کر دیا جائے… یہ قرآن کی اس آیت کے مطابق ہے جس میں حضور سے کہا گیا ہے کہ … ’’ان سے کہہ دو کہ اگر میں کسی معاملے میں غلطی کرتا ہوں تو وہ غلطی میری اپنی وجہ سے ہوتی ہے، اس کا ذمہ دار میں خود ہوتا ہوں ، لہٰذا اس کا وبال بھی مجھ پر ہوگا۔ اور اگر میں صحیح راستہ پر ہوتا ہوں تو وہ اس وحی کی بنا پر ہے جو میرے ربّ کی طرف سے میری طرف آئی ہے۔‘‘ (ص ۱۶، ملحضا ً) واضح ہو کہ مسٹر پرویز نے ان خیالات کو قرآن اور حدیث کی رو سے ثابت کیا ہے۔ اگر چہ احادیث کو وہ ظنی اور ناقابل یقین تصور کرتے ہیں لیکن جہاں تک ان خیالات کا تعلق ہے، ان کا کہنا ہے کہ ہم اس کو صحیح تسلیم کرتے ہیں ۔ یہ بات کہ یہ خیالات کہاں تک قرآن و حدیث کے مطابق ہیں ، ہم آگے بیان کریں گے؛ سردست حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں کو کسی دیہات کی چوپال میں نمبردار چودھری کے فیصلہ کے برابر رکھ کردیکھئے تو آپ دونوں میں کوئی خط ِامتیاز قائم نہ کرسکیں گے۔ کیونکہ بہرحال اس کا فیصلہ صحیح ہوگا یا غلط۔ غلط ہو تو اس کا ذمہ دار چودھری خود ہے اور اس کا وبال بھی اسی پر ہوگا لیکن اگر وہ صحیح ہے تو توفیق الٰہی سے ہوگا۔ دونوں میں فرق صرف الفاظ کا ہے۔ وہاں جس چیز کو وحی کہا گیا ہے یہاں توفیق ِالٰہی کہہ دیا گیا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں کو اس مقام پر لے آنے کی وجہ یہ ہے کہ آگے چل کر مسٹر پرویز کو خدا اور رسول کی اطاعت کی یہی صورت بیان کرنی ہے اور اسی کو وہ ’خلافت علی منہاجِ نبوت‘ کہتے ہیں ۔ لیکن یہاں ایک بار پھر مسٹر پرویز کی دینی بصیرت پر ہمیں افسوس کرنا چاہئے کہ ان کے خیال میں حضور کے فیصلے کبھی غلط ہوتے تھے اور وہ اپنے غلط فیصلوں کی ذمہ داری اپنے اوپر لیتے تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ ان کے غلط فیصلوں کا وبال ان پر ہوگا۔ حالانکہ نہ کوئی آیت اس پر شاہد ہے او رنہ کوئی حدیث اس کی تائید کرتی ہے اور