کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 245
’’اے ایمان والو! تم اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی او راپنے میں سے صاحب اختیار لوگوں کی۔ پھر اگر کسی معاملہ میں تمہیں اختلاف (منازعت) ہو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لے جاؤ۔‘‘ لکھتے ہیں کہ ’’اس آیت میں اسلامی نظام کا پورا نقشہ دے دیا گیا ہے۔‘‘ اگر اسلامی نظام سے مراد اسلامی نظامِ حیات ہے تو کسی شخص کو انکار کی گنجائش نہیں ۔ بلاشبہ اس میں اسلامی نظامِ زندگی کا نقشہ بتایا گیا ہے کہ خدا کے حکم کو مانو اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو بھی مانو او رحاکم وقت کی بھی اطاعت کرو۔ لیکن حاکم وقت کی اطاعت کے لئے یہ شرط بڑھانا ضروری ہے کہ اس کا حکم واجب اطاعت جبھی ہوگا کہ وہ خدا اور رسول کے احکام کے خلاف نہ ہو۔ لیکن اسلامی نظام کے وہ خدوخال جو مسٹر پرویز نے پیش کئے ہیں ، وہ اس آیت کی تصریحات سے کوسوں دور ہیں ۔ ’’اس نظام میں تمام متنازعہ فیہ اُمور کے فیصلوں کے لئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کا حکم ہے۔‘‘ (ص۱۴) کوئی پوچھے کہ رسول کے پاس آنے کا حکم اس آیت میں کہاں پر ہے۔ اگر لفظ ردوہ الی الرسول کے معنی رسول کے پاس آنے کے ہیں تو رُدُّوْه اِلَی اللّٰهِ کے معنی اللہ کے پاس جانے کے کیوں نہیں ہیں ؟ اللہ و رسول کی طرف کسی معاملہ کو لے جانے کا واضح مدعا صرف یہ ہے کہ دوباتوں میں سے جو بات کتاب و سنت کے مطابق ہو، اس پر عمل کرو۔ لیکن وہ شخص جو سنت کا قائل ہی نہ ہو وہ اس بات کو کیسے مان سکتا ہے۔ مسٹر پرویز کو چاہئے کہ وہ دیکھیں کہ کسی امر کے پیش آنے پر فقہائے اسلام کس طرح اس کو اللہ ورسول کی طرف ردّ کرتے یا لے جاتے تھے۔ ٭ یہاں پر یہ خیال پیدا ہوسکتا ہے کہ قرآنِ حکیم سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کا حکم ثابت کرنے سے مسٹر پرویز کے مقاصد کو کیا تقویت پہنچتی ہے۔ اس کی تفصیل کے لئے ملحقہ عبارت کو پڑھئے : ’’لیکن جب یہ نظام مدینہ سے آگے بڑھا تو یہ عملاً ناممکن تھاکہ دور دراز کے لوگ اپنے مقدمات کے فیصلوں کے لئے مرکز کی طرف آتے۔ اس کے لئے مختلف مقامات میں ماتحت افسر’صاحبانِ امر‘ مقر ر کرنے پڑتے۔‘‘ (ص ۱۴) اب دیکھئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کا حکم کس طرح غیر رسول کے پاس جانے کے حکم میں منتقل ہوتا جارہا ہے۔ آگے بڑھئے : ’’ان افسروں یا عدالتوں کی اطاعت خود مرکزی حکومت کی اطاعت تھی لیکن ایک فرق کے ساتھ اور وہ یہ کہ مرکزی حکومت کے فیصلوں کے خلاف کہیں اپیل نہیں ہوسکتی تھی، اس کا فیصلہ حرف ِ آخر تھا لیکن ان ماتحت عدالتوں کے فیصلے کے خلاف مرکز میں اپیل ہوسکتی تھی۔ یہ مطلب ہے اس سے