کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 244
الٰہی کی مخالفت ممکن ہی نہیں !! رسول اور غیر رسول کی اطاعت میں یہ فرق ہے اور یہ ایک ایسا ثابت شدہ قطعی اور محکم اُصول ہے جسے تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں ۔ اور یہ جو مسٹر پرویز نے لکھا ہے: ٭ اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ کسی نبی کو اس کا حق نہیں پہنچتا کہ وہ لوگوں سے اپنی اطاعت کروائے۔‘‘ (ص ۷) نہایت شرمناک جھوٹ ہے۔اللہ تعالیٰ نے واضح کیا، غیر واضح الفاظ میں بھی نہیں فرمایا کہ کسی نبی کو اس کا حق نہیں پہنچتا کہ وہ لوگوں سے اپنی اطاعت کروائے۔ بلکہ اس کے بالکل برعکس اس کا واضح ارشاد ہے کہ نبی کا منصب ہی یہ ہے کہ لوگوں سے اپنی اطاعت کروائے : ﴿ وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلاَّ لِيُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِ﴾ (النساء: ۶۴) ’’یعنی ہم نے رسول کو بھیجا ہی اس لئے ہے کہ بحکم الٰہی اس کی اطاعت کی جائے۔‘‘ ٭ اسی طرح یہ کہنا بھی کہ ’’خدا کی اطاعت براہِ راست نہیں کی جاسکتی، اس کی اطاعت رسول کی وساطت سے کی جاسکتی ہے۔‘‘ (ص ۷) علمی اور منطقی لحاظ سے ایک مہمل جملہ ہے۔ کیونکہ کسی کی وساطت سے کسی کے حکم کی اطاعت کے ہمیشہ یہ معنی ہوتے ہیں کہ کوئی شخص خود تعمیل حکم نہ کرے بلکہ کسی اور سے کروادے مثلاً خاوند بیوی کو کھانا لانے کا حکم دے اور بیوی نوکر کے ہاتھ کھانا بھیج دے تو یہ خاوند کی اطاعت نوکر کی وساطت سے ہوئی۔ لیکن یہ صورت یہاں نہیں ہے۔ اللہ نے بندے کو جن فرائض کی بجا آوری کا حکم دیا ہے، اس کا بجا لانا براہِ راست بندے ہی کا کام ہے۔ اس کی اطاعت رسول کی بجا آوری سے نہیں ہوسکتی۔عیسائیت کی بنیاد اسی غلط خیال پر قائم ہے۔ مسٹر پرویز اگر یہ کہنا چاہتے تھے کہ خدا کی اطاعت کا طریقہ رسول کی ہدایت کے بغیر کوئی شخص نہیں جان سکتا تو یہ بلاشبہ درست ہے ۔ لیکن اس مدعا کے لئے یہ عبارت صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ اطاعت کا جہاں تک سوال ہے وہ براہِ راست ہی ہر شخص کو کرنا پڑے گی۔ ہر متنفس احکامِ الٰہی کی اطاعت کا براہِ راست مکلف ہے۔ کاش مسٹر پرویز سمجھ سکیں کہ اطاعت کے مفہوم کو وساطت سے کوئی نسبت نہیں ۔ رسول کی وساطت حکم پہنچانے کے لئے ہوتی ہے۔ اطاعت کے لئے رسول کی وساطت ایک بے معنی تخیل ہے۔ ٭ اسی طرح اس آیت کا مدعا بھی نہایت گنجلک بنا دیا گیا ہے : (يٰاَايُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا اَطِيْعُوْ اللّٰهَ وَاَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَاُولِیْ الاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَيْیِٔ فَرُدُّوْه اِلَی اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ)(۵۹/۴)