کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 242
نظامِ اسلامی کی اطاعت ہی رسول کی اطاعت ہے۔چنانچہ اطاعت ِرسول کے یہ معنی سمجھانے کے بعد اب اطاعت ِرسول کا طریقہ بھی سنئے : ’’مذہب میں ہر شخص خدا کی اطاعت انفرادی طور پر کرتا ہے لیکن دین میں خدا کی اطاعت اجتماعی طور پر کرائی جاتی ہے [گویا خدا کی اطاعت جو اجتماعی طور پر کرائی جائے، اس کو مذہب سے کوئی تعلق نہیں ۔ ناقل] لہٰذا مذہب میں اطاعت کے لئے صرف خدا کی کتاب کافی ہوتی ہے۔ لیکن دنیا میں خدا کی اطاعت کے لئے کتاب کے علاوہ کسی جیتی جاگتی شخصیت کی بھی ضرورت ہوتی ہے [مدعا یہ ہے کہ جیتی جاگتی ہستی ہی نہ ہو تو خدا کی اطاعت کیوں کر ممکن ہے؟]۔ اسلام ’دین‘ کا نظام ہے مذہب نہیں ، اس لئے اس میں تنہا کتاب کافی نہیں ۔ اس کتاب کے مطابق اطاعت ِخداوندی کرانے والامرکز بھی ضروری ہے۔ یہ مرکزی شخصیت خدا کا رسول ہوتا ہے جس کی اطاعت خدا کی اطاعت ہوتی ہے۔‘‘ ( ص ۶) آگے لکھاہے: ’’لیکن رسول چونکہ بشر ہوتا ہے اور کسی بشر کی اطاعت جائز نہیں ، اس لئے رسول کی اطاعت اس کی اطاعت نہیں بلکہ خدا کی اطاعت ہوتی ہے۔‘‘ (ص۷) یہ مضمون آئندہ دو صفحات تک پھیلا ہوا ہے۔ جس کو اصطلاحِ قصائد میں ’تشبیب‘ کہتے ہیں لیکن اس تشبیب کے بعد اب گریز ملاحظہ کیجئے : ’’یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ اطاعت اس کی کی جاتی ہے جس کی بات سنی جاسکے جو محسوس طور پر درمیان میں موجود ہو۔ جو محسوس طور پر درمیان میں موجو د نہ ہو، عملی معاملات میں اس کی اطاعت کی ہی نہیں جاسکتی۔‘‘ (ص ۱۱) یہ گریز آپ کو مقصود کے قریب تر لا رہا ہے ، مزید سنئے: ’’جب حضور نے وفات پائی تو کیفیت یہ ہوگئی کہ خدا کی کتاب تو موجود تھی لیکن وہ محسوس شخصیت جس نے کتاب اللہ کی اطاعت کروانی تھی [یہ جملہ کم سواد اشخاص کے خاص طرزِ نگارش میں سے ہے] موجود نہ رہی۔ یہ تو الگ بات ہے کہ رسول اللہ نے اپنی احادیث کا کوئی مجموعہ مرتب فرما کر اُمت کو نہیں دیا تھا۔ اگر کوئی ایسا مجموعہ موجود بھی ہوتا تو بھی مشکل وہی رہتی کہ کتابیں موجود تھیں لیکن مرکزی شخصیت موجود نہ تھی۔ [یہ پیش بندی اس لئے ہے کہ اگر احادیث کا کوئی مجموعہ ثابت بھی ہوجائے تو اس کو بے اثر اور بے فائدہ بنا دیا جائے] ‘‘ (ص ۱۹) دیکھا آپ نے مسٹر پرویز نے کس بے ڈھنگے طریقہ سے حدیث کی افادیت کوختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ چاہتے تو حدیث کی موجودگی میں بھی خود کو مرکزی شخصیت ثابت کرکے حدیث کو بھی اسی طرح ختم کردیتے جس طرح انہوں نے قرآن کا خاتمہ کیا یعنی آیاتِ کلامِ الٰہی کی طرح احادیث کو بھی فرمودۂ رسول کہے جاتے او رمطلب من مانا بیان کرتے رہتے۔ اب کون تھا جو ان سے پوچھتا کہ دین اور مذہب