کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 241
’’یہ مفہوم انوکھا نہیں بلکہ شروع ہی سے ایسا سمجھا جاتا رہا ہے اور اب بھی ایسا ہی سمجھا جاتا ہے۔ اس پر ہمارے دور کی تفسیریں بھی شاہد ہیں ، مثلاً ابوالکلام صاحب آزاد کی ترجمان القرآن اور مودودی صاحب کی تفہیم القرآن۔‘‘ (ص ۱۳) یعنی ’ترجمان القرآن ‘ اور ’تفہیم القرآن‘ میں یہی بتایا گیا ہے کہ ﴿ اَطِيْعُوْا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوْا الرَّسُوْلَ﴾ میں اللہ اور رسول سے مراد امام یا امیر یا اسلامی نظام ہے۔ اس انکشاف سے ادھر تو مولانا آزاد کی روح پھڑک ہی گئی ہوگی۔ ادھر مولانا مودودی کے رفقا کو لازم ہے کہ مسٹر پرویز کو اس معنی آفرینی کا شکریہ لکھ بھیجیں !! اب ذرا آپ وہ دلیل جو اس امر کے ثبوت میں ہے کہ خدا اور رسول کے معنی امام یا امیر یا اسلامی نظام کے ہیں ، جگر تھام کر سنئے۔ مبادا آپ کی فراست کلیجہ پھاڑ کر دم توڑ دے۔ فرماتے ہیں کہ ﴿ اَطِيْعُوْا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهُ، وَلَا تَوَلَّوْا عَنْه﴾ میں اللہ اور رسول (دو) کا ذکر ہے اور عنہ میں ضمیر واحد ہے۔اس لئے ان دونوں سے مراد ایک امیر یا امام ہے۔ ‘‘ عنہ کی ضمیر واحد ہونے سے خدا اور رسول کے معنی امیر یا اسلامی نظام کے کس طرح ہوگئے؟ اس کی تفصیل آگے آئے گی۔ سردست یہ عبارت اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ مسٹرپرویز عربی زبان سے خوب واقف ہیں ۔ یہاں تک کہ ان کو یہ بھی معلوم ہے کہ ’عنہ‘ میں ضمیر واحد ہے اور غالباً یہ ایک ایسا انکشاف ہے کہ آج تک کلامِ الٰہی کے مفسرین نہ دیکھ سکے کہ یہ ضمیر واحد ہے اور اس کے معنی سواے امیر یا ا سلامی نظام کے اور کچھ ہو ہی نہیں سکتے! انہوں نے غلطی کی جو اس آیت کا یہ مطلب سمجھا کہ اس میں اللہ اور رسول کی اطاعت کا حکم اور رسول کے حکم سے سرتابی کرنے کی ممانعت ہے اور یہ نہ دیکھا کہ اس ضمیر واحد کورسول کی طرف پھیر دینے سے مسٹر پرویز کا کارخانہ تباہ ہوجائے گا اور امارت و امامت یا اسلامی نظامت کا تصور ختم ہوجائے گا۔ لیکن یہ دلیل نظام اسلامی کے قرآنی ثبوت میں مسٹر پرویز کا شاہکار نہیں ہے کیونکہ اس سے بھی بڑا ثبوت انہوں نے یہ دیا ہے کہ ’’ہمارے ہاں بھی گورنمنٹ (حکومت) یا نظامی اجتماعی ادارہ (Organisation) کے لئے واحد کے ہی صیغے استعمال ہوتے ہیں ۔ یہی مفہوم قرآن کے ان مقامات میں ہے۔‘‘ ( ص۱۲) اب تو شاید کسی شخص کو بھی شبہ نہیں رہے گا کہ اللہ و رسول کے معنی ’اجتماعی ادارہ‘ ہے کیونکہ انگریزی میں Organisation کے لئے واحد ضمیر استعمال ہوتی ہے …خدا یا! عام بصیرت کا کیا اس قدر فقدان ہے کہ ایک شخص کو ایسے بے سروپا خیالات پیش کرنے کا حوصلہ ہوسکتا ہے؟ یقین ہے کہ اب کچھ کچھ آپ سمجھنے لگے ہوں گے کہ مسٹر پرویز کے اس ایچ پیچ اور خلجان میں پڑنے اور دوسروں کو خلجان میں ڈالنے سے کیا مدعا ہے؟ مطلب یہ ہے کہ اطاعت ِرسول کا زمانہ ختم ہوچکا، اب