کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 240
کے لئے بھیجا جاتاہے او راسی لئے اسے مامور من اللہ کہتے ہیں ۔ جس طرح ایک دانشمند مدار المہام سلطنت شاہی احکام کی تبلیغ کے بعد تعمیل حکم کے لئے ہدایات نافذ کرتا ہے، اسی طرح ایک مامور من اللہ احکام الٰہی کی تبلیغ کے بعد تعمیل کے لئے ہدایات دیتا ہے۔﴿يُعَلِّمُهُمُ الْکِتَابَ وَاْلحِکْمَةَ﴾ کے یہی معنی ہیں کہ رسول صرف اللہ کا حکم سنا کر سبکدوش نہیں ہوجاتا بلکہ اس حکم کی اطاعت کے لئے ضروری احکامات بھی نافذ کرتا ہے۔ نہایت بدبخت ہے وہ رعایا جو عمالِ شاہی کی ہدایات کو تسلیم نہ کرے اور نہایت بدبخت ہے وہ مسلمان جو رسول اللہ کی اطاعت کو بھی واجب نہ جانے۔ اطاعت ِرسول کا صحیح موقف اس سے کم، اس سے زیادہ یا اس کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ۔ لیکن مسٹر پرویز نے اطاعت ِرسول کے ایک ایسے معنی گھڑ لئے ہیں ، جو اطاعت ِرسول کی بجائے مخالفت ِرسول کا ایک مستقل عنوان بن گیا ہے۔ یہاں پر آپ کو یقین نہ آئے گا کہ ایک مسلمان جو اس قرآن پر ایمان رکھتا ہو جس میں اتباع و اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ایک دو جگہ نہیں بلکہ بیسیوں مقام پر موجود ہے، کس طرح اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرسکتا ہے او رکیسے ممکن ہے کہ ﴿ اَطِيْعُوْا الرَّسُوْلَ﴾ کے نہایت واضح اور بار بار دہرائے ہوئے حکم سے انحراف کرے۔ بلاشبہ اطاعت ِرسول سے انکار کرنا عام مسلمانوں کے لئے ممکن ہی نہیں ۔ لیکن مسٹر پرویز کو اسلامی نظریات سے کنارہ کش ہونے کی جو خاص فنی مہارت حاصل ہے، اسی مہارت سے اس باب میں بھی انہوں نے کام لیا ہے۔ یہ کام احتساباً اگرچہ سخت مشکل تھا لیکن عملاً نہایت آسان ہے۔ ہم ان کے اس فن کا ذکر اجمالاً تو ابتدائی صفحات میں کرچکے ہیں ، یہاں پر کس قدر تفصیل اور وضاحت مقصود ہے۔ اطاعت ِرسول سے انحراف کی پرویزی دلیل:مسٹرپرویز نے کبھی یہ نہیں کہا کہ میں اطاعت ِخدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے منکر ہوں ۔ انہوں نے صرف یہ کہا کہ اطاعت ِخدا و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے معنی ’نظامِ مرکز‘ کی اطاعت ہے، وہ ص۱۳ پرلکھتے ہیں : ’’اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مراد وہ نظامِ یا نظامِ مرکز ِامام ، امیر ہے ، جو اللہ کے قانون کو عملاً نافذ کرتا ہے‘‘ اس عبارت کی خوبی یہ ہے کہ اس میں اللہ کے قانون کے نفاذ کا ذکر کرکے خدا کی اطاعت کا تصور تو باقی رکھا ہے لیکن رسول کی جگہ امام یا امیر کو دے دی گئی ہے یعنی جس طرح رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، اللہ کے قانون کو عملاً نافذ کرتا ہے، اسی طرح امام یا امیر بھی اللہ ہی کے قانون کو عملاً نافذ کرتا ہے۔ اب آپ یہ تو کہہ ہی نہیں سکتے کہ یہ تعبیر حکم قرآن اَطِيْعُوْا الرَّسُوْلَ کے صریحاً خلاف ہے کیونکہ انہوں نے آگے چل کر وضاحت کردی ہے کہ تمام مقامات میں ’’اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مراد امام یا امیر یا اسلامی نظام ہے۔‘‘ (ص ۱۳) اور اس پر ستم ظریفی دیکھئے کہ فرماتے ہیں :