کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 238
پیرا ہونا جو اللہ نے دیا اور چونکہ اطاعت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم بھی اللہ کا ہے، اس لئے جو شخص رسول کی اطاعت کرتا ہے وہ فی الواقع اللہ کے حکم کی اطاعت کرتاہے اور یہ توجیہ خود ساختہ نہیں ہے بلکہ قرآنی صراحت موجود ہے: ﴿ مَنْ يُطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ﴾(نساء :۸۰) ’’جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی۔‘‘ لیکن قرآن میں یہ کہیں بھی نہیں ہے کہ جس نے رسول کی عبادت کی، اس نے اللہ کی عبادت کی۔ کیونکہ اطاعت اور عبادت دونوں بالکل مختلف المعنی الفاظ ہیں ۔ اگر کوئی شخص ذرا سی حقیقت پسندی کو کام میں لائے تو وہ تسلیم کرلے گا کہ بلاشبہ احکامِ الٰہی کی اطاعت بھی عبادت ہے لیکن ایسی صورتیں بھی ہیں کہ غیر اللہ کی اطاعت بھی عبادتِ الٰہی بن جاتی ہے۔ لیکن یہ کبھی ممکن نہیں کہ غیراللہ کی عبادت بھی کسی صورت اللہ کی عبادت قرار دی جائے۔ اطاعت ِرسول کا واجب ہونا اور عبادتِ رسول کا حرام ہونا قرآنِ حکیم کی نہایت واضح تعلیمات میں سے ہے۔ دوسری مثال مسٹر پرویز نے عبادت اور اطاعت کے مفہوم کو کچھ اس طرح اُلجھا دیا ہے کہ ان کی تمام تقریر مہمل ہو کر رہ گئی ہے۔ چنانچہ آیت ﴿ اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰهِ اَمَرَ اَنْ لاَّ تَعْبُدُوْا اِلاَّ اِيَّاہ﴾ کے تحت لکھا ہے : ’’اگر عبادت سے مراد پرستش لی جائے تو آیت کے کچھ معنی ہی نہیں بنتے۔ حکومت صرف اللہ کے لئے ہے تم صرف اس کی پرستش کرو۔ خدا کی پرستش تو ہر حکومت میں ہوسکتی ہے۔ اقوام متحدہ نے بنیادی حقوقِ انسانیت کا جو منشور شائع کیا ہے، اس میں پرستش کی آزادی کو انسانوں کا بنیادی حق قرار دیا ہے۔‘‘ (ص۳) یہ عبارت ’ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ‘ کی مشہور کہاوت کے عین مصداق ہے۔ آیت کا صاف مطلب یہ ہے کہ اللہ کے سوا اور کسی کا حکم واجب التّسلیم نہیں اور اس کا حکم یہ ہے کہ صرف اللہ کی عبادت کرو۔ امریکہ میں ہو یا انگلستان میں ، روس میں ہو یا پاکستان میں ، بہرحال عبادت اللہ کی کرو او ریہی اللہ کا حکم ہے۔ اگر خدا کی پرستش ہر حکومت میں ہوسکتی ہے تو آیت کے معنوں میں کیا خلل پیدا ہوگیا۔ اس سے بھی زیادہ مہمل عبارت یہ ہے: ’’خدا کی پرستش تو ہم انگریز کے عہد ِحکومت میں بھی کرتے تھے اور آج ہندوستان کامسلمان بھی خدا کی پرستش کرتاہے۔ اس لئے قرآن کی رو سے خدا کی عبادت سے مراد ہی اس کی محکومیت اختیار کرنا ہے۔‘‘ (ص۳) کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ انگریز کے عہد ِحکومت میں خدا کی پرستش جو ہم کرتے تھے اور آج