کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 236
سے کہے کہ تم اللہ کو چھوڑ کر میری محکومی اختیار کرو۔ اسے یہی کہنا چاہئے کہ تم سب ربانی بن جاؤ۔‘‘ اب چونکہ ایک غلط بات پیش نظر تھی کہ کوئی شخص نبی کا محکوم نہیں ہوسکتا، اس لئے پہلے تو آیت کا غلط ترجمہ کرنا پڑا۔ کُوْنُوْا عِبَادًا لِّیْ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ کا صحیح مطلب تو یہ تھا کہ کوئی نبی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ’’اللہ کو چھوڑ کر میری ’بندگی‘ اختیار کرو‘‘ اس کی بجائے انہوں نے یہ ترجمہ کیا کہ ’’اللہ کو چھوڑ کر میری ’محکومی‘اختیار کرو‘‘… اس ترجمہ پر معترض کو یہ حق ہے کہ وہ کہے کہ شاید ان کو یہ بھی نہیں معلوم کہ عبدیت اور محکومی میں کتنا فرق ہے۔ پھر اسی آیت کے ترجمے میں انہوں نے خود حکومت کا لفظ لکھا ہے۔ اب اگر یہ کہا جائے کہ خدا جس کو حکومت دے وہ کسی کو محکوم نہیں بنا سکتا تو کتنی بڑی حماقت ہے بھلا وہ حکومت کیسی جہاں کوئی محکوم ہی نہ ہو۔ یہ دونوں باتیں اگرچہ مسٹر پرویز کے علم اور عقل کی کوتاہی پر دال ہیں ۔ لیکن میں ان کو ایسا نہیں سمجھتا۔ یہ قصور علم اور عقل کا نہیں بلکہ اس غلط تصور کا ہے جو ان کے ذہن پر مسلط ہے اور جس کے لئے انہیں یہ پاپڑ بیلنے پڑے ہیں ۔ اگر وہ ذرا سی بھی کوشش کرتے تو ان کو قرآنِ حکیم کے اُردو ترجموں میں بھی یہ بات لکھی ہوئی نظر آجاتی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بعض دشمنانِ دین نے یہ الزام لگایا کہ یہ شخص اللہ کی بجائے اپنی عبادت کروانا چاہتا ہے۔ اس پر یہ آیت اُتری کہ بھلا کوئی نبی ایسا کرسکتا ہے؟ آخر اس طرح صحیح مطلب بیان کرنے میں کون سی اسلامی روح کچلی جارہی تھی جس کی حفاظت کے لئے انہوں نے کلامِ الٰہی کی معنوی تحریف بھی کی اور کچھ مطلب حل نہ ہوا۔ زیر نظر رسالہ اسی قسم کی متعدد غلط اندیشیوں سے پرُ ہے۔ میں نے پہلی ہی سطر سے یہ مثال محض نمونہ کے طور پر پیش کی ہے۔ اب میں ان غیر اسلامی، بے مصرف اور غلط خیالات کا جائزہ لینا چاہتا ہوں جو مسٹر پرویز نے اس رسالہ میں پیش کئے ہیں ۔ اس رسالہ کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے موضوع کو ایک غلط مقصود کا وسیلہ بنایا گیا ہے او ر اس طرح ایک نہایت متعفن غذا کو مکلف خوان پوش میں پیش کیا گیا ہے۔ موضوعِ کتاب تو ’اطاعت ِحق‘ ہے جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ’’اطاعت اور محکومیت صرف خدا کی ہوسکتی ہے۔کسی انسان کی نہیں ۔‘‘ (ص ۴) اور مقصود یہ ہے کہ احادیث ِرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع نہ کیا جائے۔ حالانکہ اسی کا نام انکارِ سنت ہے اور یہی مسٹر پرویز کا مخصوص نظریہ ہے۔اس مقصد کے لئے سب سے پہلے انہوں نے آیاتِ قرآن حکیم سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہر شخص کو صرف اللہ کا حکم ماننا چاہئے۔ میرے خیال میں اس مضمون کی تائید میں کلام پاک کا یہ ٹکڑاکافی تھا :﴿ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰهِ﴾ یعنی ’’حکم دینے کا حق سوائے اللہ کے اور کسی کو بھی نہیں ہے۔‘‘ (الانعام: ۵۷)