کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 235
جس طرح مرزائیوں نے کہاکہ خاتم النّبیین کے جو معنی سمجھے جاتے تھے (یعنی آخری نبی) وہ غلط ہیں بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ نبی جس کے بعد اس کی اُمت میں بہت سے نبی ہوں ، اسی طرح پرویزیوں نے کہا کہ اطاعت ِرسول کا جو مطلب سمجھا جاتا ہے (یعنی ارشاداتِ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی) وہ غلط ہے۔ اوراس کا صحیح مطلب ہے’مرکز ِملت کی اطاعت‘ مرزا غلام احمد کی ہفوات کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب ان کی جماعت میں سے بہت سے لوگوں کا خود اپنے پیشوا کے عقائد او راپنے طرزِ عمل پر تاسف بڑھتا جارہا ہے۔ لیکن مسٹر پرویز کے پیروکاروں کے حوصلے ابھی بلند ہیں اور ان کے خیالات کی کشتی ان کے منتشر اور غیر متوازن افکار کی تاریکیوں میں ساحل کی بجائے خوفناک چٹانوں کی طرف بہتی چلی جارہی ہے۔ ہمیں اس کشتی سے کوئی دلچسپی نہیں البتہ ان لوگوں کی سلامتی مقصود اور محبوب و مطلوب ہے جو اس پر سوار ہیں ۔ اسی مدعا کے پیش نظر میں ان کے رسالہ ’اطاعت رسول‘ کے مضمرات پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں ۔ وما توفیقي إلا باللہ ’عبادت/بندگی‘ اور ’اطاعت/محکومیت‘ کو خلط مَلط کرنے کی کوشش مقامِ شکر ہے کہ مسٹر پرویز کا یہ رسالہ اسی قدر گنجلک ، بے ربط، غیر منطقی اور اُلجھے ہوئے خیالات اور ناقص انشا کا ملغوبہ ہے کہ کوئی صحیح الخیال انسان یا عام فراست رکھنے والا شخص ایک لمحہ کے لئے بھی اس کے مندرجات سے متاثر نہیں ہوسکتا، البتہ عوام کا ’مرض آمادہ‘ مزاج اور افرنجیت کی مسموم فضا سے ماؤف ذہن عجب نہیں کہ اس کا اثر قبول کرلے۔ بلاشبہ یہ ایک بدبختی ہوگی لیکن اس رسالہ کو مسٹر پرویز کی علمی فرومائیگی یا ان کی ابلہی اور بلید الفہمی کی دلیل قرار نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ بڑے سے بڑا عالم یا دانشور بھی جب کسی واضح غلطی کی حمایت میں قلم اٹھائے گا تو اس کے خیالات میں الجھاؤ، بیان میں گل جھٹیاں اور استدلال میں ایسی ہی خامیاں ناگزیر ہوں گی۔ پرویز کے متعلق میرا نظریہ تو یہی ہے کہ غلط کو صحیح یا صحیح کو غلط ثابت کرنے کے لئے وہ صلاحیت بھی ان میں نہیں ہے جوو کلائے مرافعہ میں مشاہدہ کی جاتی ہے ۔ مثلا ً دیکھئے رسالہ کی پہلی ہی سطر میں لکھتے ہیں : پہلی مثال ’’ دین کا مقصود ومطلوب یہ ہے کہ انسان کو دوسرے انسانوں کی محکومی سے نکال کر قوانین خداوندی کی اطاعت میں لایا جائے۔‘‘اس دعویٰ کے ثبوت میں یہ آیت پیش کی ہے : ﴿ مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّوْتِيَهٗ اللّٰهُ الْکِتَابَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُوْلَ لِلنَّاسِ کُوْنُوْا عِبَادًا لِّیْ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلٰکِنْ کُوْنُوْا رَبَّانِيِّيْنَ﴾ (۳/۷۸) ’’کسی انسان کو اس کا حق نہیں پہنچتا کہ اللہ اسے کتاب اور حکومت اور نبوت دے اور وہ لوگوں