کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 233
بن سکتا ہے تو سنت ِنبویہ کیوں نہیں بن سکتی؟ منکرین ِحدیث، قرآن کے متن اور الفاظ کے متفق علیہ ہونے پر جو زور دیتے ہیں ، تو یہ محض پانی میں مدھانی چلانے کے مترادف ہے۔ اس لئے کہ عملی زندگی میں جو چیز مطلوب ہے وہ متن ِقرآن یالفاظِ قرآن نہیں ، بلکہ وہ مفہوم ہے جو متن یاالفاظ سے حاصل کیا جاتا ہے، اگر اس مفہوم میں ا ختلاف ہو تو خود سوچئے کہ الفاظِ قرآن کا متفق علیہ اور سند و حجت ہونا یا نہ ہونا ایک برابر ہے۔ لہٰذا منکرین ِسنت کا یہ موقف ہی غلط ہے کہ ’’دستورِ حیات، صرف وہی چیز ہوسکتی ہے جو اختلاف سے بالاتر ہو۔‘‘ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے ڈاکٹر عبدالودود سے قلمی مناظرہ کے دوران اسی بات کو بایں الفاظ بیان کیا تھا اور ڈاکٹر عبدالودود صاحب اس کا کوئی جواب نہ دے پائے تھے : ’’ ڈاکٹر صاحب خود فرما رہے ہیں کہ ’’تعبیر ایک انسانی فعل ہے جو کسی دوسرے کے لئے حجت اور سند نہیں ہوسکتا۔‘‘ …اس صورت میں تو لامحالہ الفاظ ہی حجت اور سند رہ جاتے ہیں اور معنی میں اختلاف ہوجانے کے بعد ، ان کا حجت و سند ہونا لاحاصل ہوجاتا ہے۔کیونکہ عملاً جو چیز نافذ ہوتی ہے، وہ کتاب کے الفاظ نہیں بلکہ اس کے وہ معنی ہوتے ہیں جنہیں کسی شخص نے الفاظ سے سمجھا ہو۔ اس لئے میں نے دوسرے خط میں ان سے عرض کیا تھا کہ پہلے آپ اپنے اس نقطہ نظر کو بدلیں کہ ’’آئین کی بنیاد صرف وہی چیز بن سکتی ہے جس میں اختلاف نہ ہوسکے۔‘‘ اس کے بعد جس طرح یہ بات طے ہوسکتی ہے کہ قرآنِ مجید بجائے خود اساسِ آئین ہو، اور اس کی مختلف تعبیرات میں سے، وہ تعبیر نافذ ہو جو کسی بااختیار ادارے کے نزدیک اَقرب الی الصواب قرار پائے۔ اسی طرح یہ بات بھی طے ہوسکتی ہے کہ سنت کو بجائے خود اساسِ آئین مانا جائے اورمعاملات میں عملاً وہ سنت نافذ ہو جو کسی بااختیارادارے کی تحقیق میں سنت ِثابتہ قرار پائے۔ جس طرح قرآن کے الفاظ کو اساسِ آئین ماننے کا فائدہ یہ ہوگا کہ تعبیر کے اختلافات کا سارا چکر صرف الفاظِ قرآن ہی کے حدود میں گھوم سکے گا، ان کے دائرے سے باہر نہ جاسکے گا۔ اسی طرح سنت کو اساسِ آئین ماننے کا فائدہ یہ ہوگا کہ ہمیں اپنے عمل کے لئے، انہی ہدایات و تعلیمات کی طرف رجوع کرنا پڑے گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ماثور ہیں او رہم کوئی آزادانہ قانون سازی، اس وقت تک نہ کرسکیں گے جب تک تحقیق سے ہمیں یہ معلوم نہ ہوجائے کہ فلاں مسئلے میں کوئی سنت ثابت نہیں ہے۔ یہ سیدھی سی بات ماننے میں آخر کیادِقت ہے؟‘‘ (ترجمان القرآن، ستمبر ۱۹۶۱ء ’منصب ِرسالت نمبر‘ ص ۱۵۷، ۱۵۸) وآخردعوانا ان الحمد للَّہ رب العالمین