کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 232
ایک نادر شاہی مطالبہ گذشتہ بحث سے یہ واضح ہے کہ پرویز صاحب مختلف اوقات میں قرآن کی مختلف اور متضاد تعبیریں پیش کرتے رہے ہیں ۔ پھر اس پر خود ’مفکر ِقرآن‘ کا یہ نادر شاہی مطالبہ بھی ملاحظہ فرمائیے کہ ’’جہاں تک عہد ِرسالت اور خلافت ِراشدہ کے دور کا تعلق ہے، ہمیں چاہئے تھا کہ اس تاریخ کو قرآ نِ مجید کی کسوٹی پر پرکھتے۔ جو واقعات اس کے مطابق ہوتے انہیں قبول کر لیتے، جو اس کے خلاف جاتے، انہیں وضعی قرار دے کر مسترد کردیتے۔ یہ اس لئے کہ (خود قرآن مجید کی شہادت کی رو سے) ان حضرت کی زندگی، قرآن کے قالب میں ڈھلی ہوئی تھی، اور وہی ان کی سیرت کی تاریخ کا معیار قرار پاسکتاتھا؛ لیکن ہم نے ایسا نہ کیا۔‘‘ (نومبر۸۰ء: ص ۶۰) اب غور فرمائیے کہ پرویز خود تو ساری عمر، قرآن کی متضاد تعبیریں پیش کرتے رہے ہیں ۔ ان کی کس تعبیر کو حتمی معیار قرار دے کر احادیث اور تاریخ کی روایات کو پرکھا جائے؟ فرض کیجئے کہ آج انہوں نے ایک تعبیر پیش کی، ’محققین‘کا ایک بہت بڑا گروہ اس تعبیر کی اساس پر، روایات، احادیث و تاریخ کو کھنگالنے کا کام شروع کردیتا ہے، وہ ابھی اس ’کارِخیر‘ سے فارغ ہوا یا نہیں کہ ’مفکر ِقرآن‘ کی فضاء ِدماغی میں خیال کا نیا جھکڑ آیا، اور اس کے ساتھ ہی پہلی تعبیر بھی مرغِ بادنما کی طرح بدل گئی۔ اب اس دوسری تعبیر کے مطابق، روایات کی چھان بین کا سلسلہ از سر نو پھر آغاز پذیرہوا۔ ابھی یہ کام پایۂ تکمیل کو پہنچا کہ نہیں ، مگر یہ خبر آگئی کہ ’مفکر ِقرآن‘کی دوسری تعبیر بھی ترمیم کا نشانہ بن گئی۔ اب تیسری تعبیر کے مطابق، پھر نئے سرے سے، جانچ پڑتال کا یہ سلسلہ شروع ہوگا اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ’مفکر قرآن‘ کے صحراءِ دماغی میں خیالات کی آندھیاں چلتی رہیں گی۔ یہ ہے وہ مقامِ عالی مرتبت جو ’مفکر ِقرآن‘ صاحب نے اپنے لئے اختیار کر رکھا تھا، کہ تاریخ اور احادیث کی روایات، دست بستہ، ان کے حضور کھڑی رہیں او رپرویز صاحب ہر بدلتی تعبیر کے مطابق ان کی صحت اور عدمِ صحت کا فیصلہ فرماتے رہیں اور ان کی تعبیر کے تغیر پر لازم ہے کہ ہر چیز بدل جائے۔ خلاصۂ بحث ہماری یہ بحث اس امر کو واضح کر دیتی ہے کہ اگرچہ الفاظِ قرآن متفق علیہ ہیں مگر ان کی تعبیرات میں اختلاف ایک فطری امر ہے۔ احادیث کے اختلاف کی آڑ میں ، ان سے جان چھڑا کر جو لوگ تنہا قرآن کا نعرہ لگا رہے ہیں ، وہ خود بھی قرآن کی کسی ایک تعبیر پر متفق نہیں ہیں ۔ حتیٰ کہ خود ’مفکر ِقرآن‘ بھی مختلف اوقات میں متضاد تعبیریں پیش کرتے رہے ہیں ۔ اب اگر قرآن تعبیراتی اختلاف کے باوجود سند و حجت