کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 231
میں ایسی اتھارٹی سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنی متضاد و متخالف تعبیرات میں سے جس تعبیر کو بھی مختلف اوقات میں پیش کیا، اس قومِ ’عمون‘ نے اسے من و عن قبول کر لیا اور ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ان کی متضاد اور متناقض تحریروں کی بنا پر کسی تحریر سے، انہوں نے اختلاف کیا ہو۔ پرویز صاحب نے کہاکہ ’’اشتراکیت شخصی ملکیت کی قائل نہیں جبکہ اسلام اس کا قائل ہے۔‘‘ سعادت مند مقلدین نے کہا: ’’اٰمَنَّا وَصَدَّقْنَا‘‘ پھر کہا کہ ’’اسلام میں شخصی ملکیت کا کوئی وجود نہیں ۔‘‘ شاگردانِ نیک بخت نے کہا ’’بالکل درست‘‘… مفکر ِقرآن نے کہا کہ ’’قتل عمد میں قصاص (قتل کا بدلہ قتل) دیت اور عفو کے تینوں پہلو موجود ہیں ‘‘ پیروکاروں نے کہا ’’بجا ارشاد فرمایا‘‘ پھر پینترا بدل کر کہاکہ ’’قتل عمد کی سزا صرف قتل ہے، رہے عفو اور دیت کے پہلو، تو ان کا تعلق قتل عمد سے ہے ہی نہیں ۔‘‘ انہوں نے کہا ’’درست فرمایا‘‘… مفکر قرآن نے کہا کہ ’’اسلام میں ڈھائی فیصد زکوٰۃ امر واقعہ ہے‘‘ یہ بولے ’’أحسنت ومرحبا‘‘ پھر ا س کے برعکس یہ کہا: ’’یہ ڈھائی فیصد زکوٰۃ تو عجمی اسلام کی سازش کے ذریعہ اُمت ِمسلمہ کے گلے مڑھ دی گئی ہے، بھلا اسلام کا اس سے کیا تعلق؟‘‘ فکر و شعور سے عاری قوم نے کہا ’’سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا‘‘ … الغرض، مفکر ِقرآن عمر بھر جس متناقض قول کوبھی پیش کرتے رہے، مفلوج الفکر مقلدین نے ہر مقام پر یہی کہا : سرتسلیم خم ہے، جو مزاجِ یار میں آئے! حرام اور قطعی حرام! …جو یہ لوگ کبھی ایک مقام پر کھڑے ہو کر سوچیں کہ پرویز صاحب ایک طرف تو یہ کہتے ہیں کہ: ’’قرآن کو سند اور حجت ماننے والا تو ساری عمر میں دو متضاد باتیں بھی قرآن کی سند سے نہیں کہہ سکتا۔‘‘ (اپریل۶۷ء:ص ۵۸) اور دوسری طرف وہ ساری عمر، قرآن کا نام لے کر تضادات کا خارزار ہی پیدا کرتے رہے، لیکن سوچے تو وہ جس کی فکر میں صحت اور سلامتی کی کوئی رمق باقی رہ گئی ہو۔ یہ تو بس بھیڑوں کی قطار ہے جو برسوں سے اس رستے پر چلی جارہی ہے جس پر کبھی کوئی پہلی بھیڑ چل نکلی تھی: ﴿ کَمَثَلِ الَّذِیْ يَنْعِقُ بِمَا لاَ يَسْمَعُ اِلاَّ دُعَاءً ا وَّنِدَاءً ا﴾(البقرۃ: ۱۷۱) ’مفکر ِقرآن‘ کی خوش قسمتی :کیسا خوش قسمت تھا وہ ’مفکر ِقرآن‘ جسے اس قسم کے پیروکار میسر آگئے جو لب و دہن اور گوش و بصر بند کرکے اس کے پیچھے، اس کی وفات کے بعد بھی اسی طرح چلتے جارہے ہیں جیسے شعرا کے پیچھے ’غاوون‘ کی ٹولی بھٹکا کرتی ہے۔