کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 230
پرویز کی تعبیرات…احکامِ قرآن میں حقیقت یہ ہے کہ وہ قرآنی الفاظ و آیات میں اپنے طبع زاد مفاہیم و تصورات گھسیڑا کرتے تھے، اور پھر ان خود ساختہ قرآنی تعبیرات کو ردّ و قبول کا معیار قرار دیا کرتے تھے، حالانکہ آیات والفاظِ قرآن تو واقعی منزل من اللہ ہیں ، لیکن انسانی تعبیراتِ قرآنیہ منزل من اللہ نہیں بلکہ بشری تشریح کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ یہ بات خود پرویز صاحب کو مسلم تھی : ’’دین میں حجت، قرآنِ کریم کا متن ہے، نہ کہ کسی انسان کی تشریح، تفسیر یا تعبیر۔‘‘ (اگست۶۸ء:ص ۳۰) اب ظاہر ہے کہ علما اگر پرویز صاحب کی تعبیر کا انکار کرتے ہیں تو وہ ایک انسان کی تعبیر قرآن کا انکار کرتے ہیں نہ کہ نفس قرآن کا۔ لیکن ’مفکر ِقرآن‘ اپنے آپ کو ایسے بلند مقام پر فائز سمجھتے تھے کہ اگر کوئی ان کی تعبیر کا انکار کرتا تو وہ اسے قرآن کا منکر اور مخالف قرار دیا کرتے تھے۔ ’’میں بلاتشبیہ اور بلا تمثیل عرض کرنے کی جرات کروں گا کہ یہ لوگ میری مخالفت نہیں کرتے، کتاب اللہ کی مخالفت کرتے ہیں ۔‘‘ (دسمبر۷۸ء: ص ۵۲) وہ اپنے جی سے مفہوم گھڑ کر منسوب الی القرآن کیا کرتے تھے اور پھر اسے ’قرآنی معیار‘ قرار دے کر یہ کہا کرتے تھے کہ ’’ہمارا مقصد صرف قرآنی حقائق بیان کرنا ہے، ا س سے اگر کسی مروّجہ عقیدے یا کسی کے دعوے پرزَد پڑتی ہے تو اس کی ذمہ داری ہم پر عائد نہیں ہوتی۔ کیونکہ اس باب میں مدعی قرآن ہے، ہمارا فریضہ قرآن کے دعاوی کو پیش کرنا ہے اور بس…‘‘ (جنوری۸۵ء: ص ۲۱) اتباعِ پرویز اور تضاداتِ پرویز پرویز صاحب کے ان تعبیری تضادات کو دیکھئے اور پھر داد دیجئے۔ پرویز صاحب کے اندھے مقلدین کو جو یہ شور مچایا کرتے تھے کہ ’’پرویز صاحب کی تحریروں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ نہ کبھی پرانی ہوتی ہیں اور نہ ہی ان میں کہیں تضاد واقع ہوتا ہے۔ اس لئے کہ وہ جو کچھ لکھتے ہیں ، قرآنِ کریم کی روشنی میں لکھتے ہیں اور قرآن کا یہ اعجاز ہے کہ اس کے حقائق کبھی پرانے نہیں ہوتے، نہ ہی ان میں کسی قسم کا تضاد و تخالف ہے۔‘‘ (فروری ۸۳ء: ص ۲۶) اس سے اندازہ کر لیجئے کہ پرویز صاحب کے واضح،صاف، بین اور چمکتے ہوئے تضادات کے وجود کا صریح انکار، مقلدین ِپرویز کی فکری صلاحیتوں کو کس قدر مفلوج کر چکا ہے۔ وہ پرویز صاحب کو قرآن