کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 229
طلوعِ اسلام کا مطلب یہ ہے کہ جھوٹے کو جھوٹا، خائن کو خائن، منافق کو منافق اور ’منکر حدیث‘ کو ’منکر حدیث‘ نہ کہا جائے کہ یہ ’اخلاقاً‘ بری بات ہے اور ’خلافِ تہذیب‘ ہے۔ کیا خوب کہا تھا اکبر الٰہ آبادی نے کسی ایسے ہی موقع پر ؎ مغوی کو برا مت کہو ترغیب ہے یہ میں کس سے کہوں نفس کی تخریب ہے یہ شیطان کو رحیم کہہ دیا تھا اِک دن! اک شور اٹھا خلافِ تہذیب ہے یہ بہرحال یہ تو جملہ معترضہ ہے، تعلیاتِ پرویز کا سلسلہ جاری ہے، وہ لکھتے ہیں : ’’مولوی صاحبان کے پاس ا س کا کوئی جواب نہیں تھا، انہوں نے اسی میں عافیت سمجھی تو ’طلوعِ اسلام‘ کو ’ منکر ِسنت‘ قرار دے دیا جائے اور پرویز صاحب کے خلاف کفر کے فتوے لگا دیے۔‘‘ (جون۷۳ء: ص ۱۲) ’’ا س کے (پرویز صاحب… قاسمی) اعتراضات کا ان کے (علما کے …قاسمی) پاس کوئی جواب نہ تھا ۔ اس کے لئے انہوں نے اپنا دیرینہ حربہ استعمال کیا یعنی اسے ’منکر ِحدیث‘ قرار دے کر اس کے خلاف کفر کے فتوے صادر کردیے۔‘‘ (جولائی۸۴ء:ص ۵۷) پرویز نے اپنے خلاف علماء کے فتوے کو تو خوب اُچھالا ہے کہ انہوں نے اسے منکر ِسنت قرار دیا تھا۔ لیکن خود انہوں نے علماء کے خلاف… بلکہ اپنے گروہ کے سوا، باقی سب کے خلاف… منکر ِقرآن ہونے کا جو فتویٰ دیا تھا، اس کی کبھی ایسی تشہیر نہیں کی۔ چنانچہ کارل مارکس کی ’اشتراکیت‘ پر جب قرآن کا ٹھپہ لگا کر ’نظامِ ربوبیت‘ کے نام سے پیش کیا تو اس وقت فرمایا : ’’لیکن اس آواز کی مخالفت، تمام منکرین قرآن کی طرف سے ہوگی۔‘‘ (نومبر۵۲ء: ص ۸) ’’…ظاہر ہے کہ اس جواب کے بعد نہ قرآن ہی قابل یقین رہتا ہے نہ احادیث اور یہی منکرین قرآن کا مقصود تھا۔‘‘ (نومبر۵۲ء: ص ۶۶) یتیم پوتے کی میراث کی بحث میں ، مولانا مودودی پر خاص طور پر منکر ِقرآن کا فتویٰ لگاتے ہوئے، ان کا اقتباس پیش کرنے سے قبل، یہ لکھا کہ ’’طلوعِ اسلام نے اپنی سابقہ اشاعت میں قرآنی دلائل سے ثابت کیا کہ یتیم پوتا اپنے دادا کی وراثت سے محروم نہیں ہوسکتا۔ اس کے جواب میں منکرین قرآن کی طرف سے جو جواب شائع ہوا وہ ملاحظہ فرمائیے…‘‘ (اکتوبر۵۲ء: ص ۵۸)