کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 228
حالاتِ حاضرہ کاجائزہ لینا اس کا مشن ہے۔اس کی اشاعتوں کے انبار میں سے آپ کوئی سے دو پرچے اُٹھا لیجئے؛ جہاں تک قرآنی فکر کا تعلق ہے، آپ کو اس میں کوئی تضاد، کوئی تخالف نہیں ملے گا یہ اس لئے کہ قرآنِ کریم کی رو سے اس کے من جانب اللہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اس میں کوئی تضاد نہیں ، کوئی اختلاف نہیں ۔ اس لئے جو کچھ قرآنی رہنمائی میں کہا جائے گا، اس میں بھی کوئی تضاد و تخالف نہ ہوگا۔‘‘ (جولائی۸۴ء: ص ۳۳) سبحان اللہ! کیا کہنے، ’مفکر قرآن‘کی تعبیرات کے! کس قدر، ان کی شان بلند ہے کہ قرآن ہی کی طرح، اختلاف سے بالاتر ہیں ۔ احادیث ِرسول میں اختلافات ہیں مگر تعبیراتِ پرویز، مبرا از اختلافات ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنی تیئس(۲۳) سالہ پیغمبرانہ زندگی میں (معاذ اللہ) قرآن کی تشریح و تبیین کرتے ہوئے اختلافات سے محفوظ نہ رہ سکا۔ مگر پرویز صاحب نے عمر بھر جو قرآنی تعبیرات پیش کی ہیں ، ان میں نہ تضاد ہے نہ تخالف۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم معصوم ہو کر بھی (معاذ اللہ) تبیین قرآن میں تضادات سے نہ بچ سکے مگر پرویز صاحب غیر معصوم ہو کر قرآنی تشریحات میں تضاد سے محفوظ رہے: ﴿ يَا لَيْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ هٰذَا وَ کُنْتُ نَسْيًا مَّنْسِيًّا﴾ دھڑکنا بند کر اے دل، نظر کے نور گم ہو جا وہ بے غیرت ہے جو اس دور کے شام و سحر دیکھے ! علماءِ کرام کے خلاف تعلّیاتِ پرویز آخر پرویز صاحب کے ان تضادات و تناقضات کا کوئی کہاں تک تعاقب کرے؟ علما کو کیا مصیبت پڑی ہے کہ وہ قرآن و سنت کی خدمت کی روش سے ہٹ کر پرویز صاحب کے تضادات کے خار زار میں آبلہ پائی کریں ۔ لیکن علماء کرام کی یہ روش خواہ کتنی ہی نیک نیتی سے ہو، اس سے شیطان کواس بات کا موقع مل گیا کہ ’مفکر ِقرآن‘کی پیٹھ پر تھپکی دے کر اسے اس زعم باطل میں مبتلا کردے، کہ ’’تمہارے ’دلائل‘ کا جواب،کسی سے بن پڑ ہی نہیں سکتا‘‘ پھر ہمارے ’مفکر ِقرآن‘ پندار نفس، غرور، علم اور عزت الاثم کی بلندیوں پر پرواز کرتے ہوئے ، بتکرار یہ اعلان کیا کرتے تھے کہ ’’ملا کے پاس نہ علم ہوتا ہے، نہ بصیرت؛ نہ دلائل ہوتے ہیں نہ براہین‘‘ (۵ فروری ۱۹۵۵ء ص۴) ’’ان کے پاس طلوعِ اسلام کے دلائل کا کوئی جواب نہ تھا، ا س لئے انہوں نے اس سلسلہ میں وہی ٹیکنیک اختیار کی جو ہامانیت کا بنیادی خاصہ ہے یعنی انہوں نے پراپیگنڈہ شروع کردیا، کہ طلوعِ اسلام منکر ِسنت ہے، منکر ِشانِ رسالت ہے۔‘‘ (مئی ۷۲ء: ص ۲۸)