کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 226
کسی ’شیطان‘ نے یونہی اس پر ’قرآنی راستہ‘ کا سائن بورڈ آویزاں کر دیا ہو تاکہ بندگانِ خدا کو اپنے جہنم میں لے جائے ؛ ٹھیک اس تکنیک پر عمل پیرا ہوتے ہوئے، وہ پہلے یہ وعظ فرماتے ہیں : ’’قرآن کا دعویٰ ہے کہ﴿ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلاَفًا کَثِيْرًا﴾ (۸۲/۴) ’’ اگر قرآن، اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سے اختلافات پائے جاتے۔‘‘ بالفاظِ دیگر قرآن کے منجانب اللہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس میں کوئی اختلافی بات نہیں … اس نے اپنے نزول کا مقصد یہ بتایا ہے کہ ﴿ وَمَا اَنْزَلْنَا عَلَيْکَ الْکِتَابَ الِاَّ لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِیْ اخْتَلَفُوْا فِيْهِ﴾ (۶۴/۱۶) ’’اس کتاب کو نازل ہی اس لئے کیا گیا ہے کہ جن امور میں لوگ اختلاف کرتے ہیں ، انہیں نمایاں طور پر واضح کیا جائے۔‘‘ …ا س نے مسلمانوں کو حکم دے دیا کہ ﴿ وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيْهِ مِنْ شَيْیٍٔ فَحُکْمُهٗ اِلَی اللّٰهِ﴾ (۱۰/۴۲) ’’جس بات میں بھی تم میں اختلاف ہوجائے، اس کا فیصلہ اللہ کی کتاب (کتاب نہیں بلکہ وحی…قاسمی) سے کرا لیا کرو۔‘‘ (اگست۵۹ء:ص۶) پھر اس وعظ کی اگلی خوراک، بایں الفاظ دی جاتی ہے : ’’اب ظاہر ہے کہ جس کتاب کا اپنے متعلق یہ دعویٰ ہو، اس کے متعلق یہ کہنا کہ وہ اختلافات مٹانے کی صلاحیت نہیں رکھتی ، دو میں سے ایک بات کو ثابت کردیتا ہے یعنی (۱) یا تو یہ کہ اس کتاب کا (معاذ اللہ) دعویٰ غلط ہے اور یا یہ کہ (۲) ایسا کہنے والے جھوٹے ہیں ۔‘‘ پھر اس وعظ کی آخری خوراک کے ذریعہ، تلاشِ حق کے مسافر کے ذہن میں ، جو متذبذب کھڑا ہے یہ نتیجہ اِلقا کیا جاتاہے : ’’پہلی بات تو کوئی مسلمان (ایمان کا دعویٰ کرتے ہوئے) کبھی تسلیم نہیں کرسکتا، لہٰذا بات دوسری ہی ہے یعنی جو لوگ کہتے ہیں کہ قرآن کے مطابق چلنے کے باوجود اختلافات نہیں مٹ سکتے، وہ جھوٹ بولتے ہیں اور قرآن پر بہتان باندھتے ہیں بلکہ اس کے منزل من اللہ ہونے سے انکار کرتے ہیں ۔‘‘ (اگست۵۹ء:ص۶) حالانکہ ان دو شقوں کے علاوہ ایک تیسری شق بھی ہے یعنی یہ کہ… ’’قرآن کا جو مفہوم آپ نے بیان کیاہے، وہ غلط ہو؛ اور اختلاف اسی مفہوم کی وجہ سے لازم آتا ہو‘‘… او راصل حقیقت بھی یہی ہے۔ تعبیراتِ قرآنیہ کے یہ وہ اختلافات ہیں ، جو دوگروہوں کی طرف سے نہیں بلکہ اہل قرآن کے صرف ایک فرقہ کے قائد کی طرف سے وقتاً فوقتاً صادر ہوتے رہے ہیں ۔ اور یہ بھی چند ایک بطورِ نمونہ مشتے از خروارے ہیں ، جو شخص بھی خالی الذہن ہو کر ان حقائق پر غور کرے گا، اسے یہ حقیقت پا لینے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی کہ پرویز صاحب کی ساری زندگی تضادات کا مجموعہ ہے۔ اگر ان کے جملہ تضادات کو یکجا کیا جائے تو اچھی خاصی ضخیم کتاب مرتب ہوجائے گی (اور فی الواقعہ میرا ارادہ یہ ہے کہ میں