کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 225
نہیں کرسکیں گے۔‘‘ (شاہکارِ رسالت: ص ۳۴۵) میں اگر پرویز صاحب کے اس تحریفی کارنامے کی قلعی کھولنے کے لئے لغوی اور صرفی و نحوی طور پر اغلاط پرویز کو واضح کروں تو اس کا فائدہ نہیں ، کیونکہ ’مفکر ِقرآن‘ کو خوش نصیبی سے ایسے اندھے عقیدت مند میسر آئے ہیں جو ان کے ہر تحریفی کارنامے کو ایسا ’علمی نکتہ‘ قرار دیتے ہیں ، جس پر ’ملا‘ نے اب تک پردے ڈال رکھے تھے۔ اس لئے میں بغیر کسی لمبی چوڑی بحث میں پڑے، ان ہی آیات کے وہ صحیح تراجم پیش کئے دیتا ہوں جو سابقہ دور میں خود انہوں نے کئے تھے : ﴿ اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا نَاْتِیْ الارْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ اَطْرَافِهَا وَاللّٰهُ يَحْکُمُ لاَ مُعَقِّبَ لِحُکْمِهٖ وَهُوَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ﴾ (۴۱/۱۳) ’’پھر کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ ہم اس سرزمین کا قصد کر رہے ہیں ؟ اسے اطراف سے گھٹا کر (ظالموں پر) اس کی وسعت تنگ کر رہے ہیں ، اور جو فیصلہ اللہ کرتاہے کوئی نہیں جو اسے ٹال سکے، وہ حساب لینے میں بہت تیز ہے۔‘‘ (معارف القرآن: جلد اوّل، ص۴۷۴) ﴿ بَلْ مَتَّعْنَا هٰؤلآَءِ وَاٰبَاءَ هُمْ حَتّٰی طَالَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ اَفَلاَ يَرَوْنَ اَنَّا نَاْتِیْ الاَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ اَطْرَافِهَا اَفَهُمُ الْغَالِبُوْنَ﴾ (۴۴/۲۱) ’’اصل یہ ہے کہ ہم نے انہیں او ران کے باپ دادوں کو (فوائد ِزندگی سے) بہرہ ور ہونے کے موقعے دیے۔یہاں تک کہ (خوش حالیوں کی سرشاری میں) ان کی بڑی بڑی عمریں گزر گئیں (اور اب غفلت ان کی رگ رگ میں رچ گئی ہے) مگر کیا یہ لوگ نہیں دیکھ رہے کہ ہم زمین کو چاروں طرف سے ان پر تنگ کرتے ہوئے چلے آرہے ہیں ؟ پھر کیا وہ (اس مقابلہ میں ) غالب ہو رہے ہیں ؟‘‘ (معارف القرآن: جلد سوم، ص۶۶۳) الغرض، پرویز صاحب کے تضادات و تناقضات کو کہاں تک بیان کیا جائے ع سفینہ چاہئے اس بحر بیکراں کے لئے ! …………………… جس طرح قرآن کے عجائبات کی کوئی حد تک نہیں ، اسی طرح جناب پرویز صاحب کے تضادات کی کوئی انتہا نہیں !! ’مفکر ِقرآن‘ کا طریقۂ واردات یہ ہے کہ ہر وہ چیز، جو ان کے مزعومات کے خلاف ہو، وہ اسے خلافِ قرآن قرار دے کر، اپنے قاری کو تذبذب کے گرد و غبار میں ایک ایسے دوراہے پر کھڑا کردیتے ہیں جہاں اسے ’قرآنی‘ یا ’غیر قرآنی‘ راستے میں سے کسی ایک کو اختیار کرنا پڑتا ہے۔ بغیر اس کے کہ وہ سوچ بھی سکے کہ جسے ’قرآنی راستہ‘ کہا جارہا ہے۔ وہ فی الواقعہ قرآنی راستہ ہے بھی یا نہیں ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ