کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 224
سے ہر ایک کو دست کش ہونا پڑتا ہے، تو پھر وہ تمام روایاتِ تاریخ جو صحابہ کے معاشی تفاضل و برتری کا ذکر کرتی ہیں ، قرآن سے متصادم ہوجاتی ہیں ؛ لہٰذا ’’جب بھی قرآن کے کسی بیان اورعہد ِمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والذین معہ کی تاریخ کے کسی واقعہ میں تضاد نظر آئے تو قرآن کے بیان کو صحیح اور تاریخ کے واقعہ کو غلط قرار دینا چاہئے۔‘‘ (جولائی ۵۹ء،ص ۱۲) اور اسے اسی کثرت سے طلوعِ اسلام میں بتکرار دہرایا گیا کہ تھا جو ناخوب ، بتدریج وہی خوب ہوا !! اب سوال پیدا ہوا کہ کیا عہد ِنبوی میں زمین پر شخصی ملکیت کا خاتمہ کیا گیا تھا؟ کیونکہ ’نظامِ ربوبیت‘ کے نفاذ کی راہ میں اس سوال سے سابقہ پیش آنا ناگزیر ہے۔ چنانچہ اس کا جواب ڈھونڈنے کے لئے قرآن کی ورق گردانی شروع ہوئی۔ نگاہ مطلب جو، سورۃ الرعد اور سورۃ الانبیاء کی ان دو آیات پر ٹکی جن کے الفاظ ایک جیسے ہیں ۔ اگرچہ ان سے زمین کی شخصی ملکیت کا خاتمہ تو ثابت نہ ہوسکا، البتہ خدع و فریب کے ہتھیار استعمال کرتے ہوئے اوّل مرحلے پر ’زمینی ملکیتوں کی حد بندی‘ کشید کر ڈالی گئی۔ دونوں آیات مع ترجمہ ملاحظہ فرمائیے : ﴿ اَوَ لَمْ يَرَوْا اَنَّا نَاْ تِیْ الاَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ اَطْرَافِهَا﴾ (۴۱/۱۴) ’’ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم ان (ظالموں ) پر ہر طرف سے زمین تنگ کرتے چلے آرہے ہیں ۔‘‘اور ﴿ اَفَلاَ يَرَوْنَ اَنَّا نَاْتِی الارْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ اَطْرَافِهَا اَفَهُمُ الْغَالِبُوْنَ﴾ ( ۴۴/۲۱) ’’کیا یہ کفار نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کو تمام سمتوں سے ان پر تنگ کرتے چلے آرہے ہیں ، کیا وہ غالب ہوں گے؟‘‘ آپ یقینا حیران ہوں گے کہ آیت میں تو ’رقبہ ہائے اراضی کی حد بندی‘ کی سرے سے کوئی بات ہی نہیں ہے، پھر آخر اس سے یہ مطلب کیسے نچوڑ لیا گیا؟ لیکن اس میں حیرانی کی کیا بات ہے؛ مفکر ِقرآن، لغت ہائے حجازی کے قارون بھی ہیں ، اس قارونی خزانے سے وہ خود فائدہ نہ اُٹھائیں تو اور کون اٹھائے گا۔ لغوی موشگافیوں کے نتیجہ میں آیت کا ترجمہ وہ نہیں رہ گیا جو اوپر درج ہے، بلکہ اس کا ترجمہ یوں قرار پایا : ’’کیا یہ لوگ اس حقیقت پر غور نہیں کرتے کہ ہم کس طرح زمین کے رقبوں کو جاگیرداروں کی ملکیت سے کم کرتے جاتے ہیں …‘‘ (۴۱/۱۴) (نظامِ ربوبیت: ص۴۰۰) ’’سورۃ الانبیاء میں کہا ہے کہ انہیں اور ان کے آباء و اجداد کو زمین متاعِ حیات حاصل کرنے کے لئے ملی تھی۔ اس پر زمانہ گزر گیا تو انہوں نے اس پر قبضہ مخالفانہ جما لیا۔ اب ہم آہستہ آہستہ اسے ان کے ہاتھوں سے نکال رہے ہیں ۔ ہمارے اس پروگرام کی تکمیل ہو کر رہے گی۔ یہ ہمیں مغلوب