کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 223
رنگ میں نظر آتی ہے۔ اشتراکیت کے بچھڑے کی محبت، جب قلب و دماغ میں رَچ بس جاتی ہے تو محاورۂ عرب کے نام پر قرآنی مفردات میں کس طرح نئے مفاہیم ٹھونسے جاتے ہیں اور آیات اللہ میں کس طرح نئی تعبیرات گھسیٹری جاتی ہیں اور تاریخ کے مسلمہ واقعات کو کس طرح پایۂ حقارت سے ٹھکرایا جاتا ہے، اسے درج ذیل اقتباسات میں ملاحظہ فرمائیے : ’’صحیح نظامِ زندگی یہ ہے کہ تم اکتسابِ رزق کے لئے زیادہ سے زیادہ محنت کرو، اور اس میں سے اپنی ضرورت کے مطابق رکھ لو اور باقی سب دوسروں کی پرورش کے لئے عام کردو۔‘‘ ﴿ يَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ﴾ (۲۱۹/۲) ’’تم سے پوچھتے ہیں کہ ہم کس قدر دوسروں کے لئے ’کھلا رکھیں ‘؟ ان سے کہہ دو کہ جس قدر تمہاری ضرورت سے زائد ہے، سب کا سب۔‘‘ ( ’اسلام کیا ہے؟‘ ص ۱۴۵) پرویز صاحب کے ذہنی پلٹاؤ کے ساتھ ہی دنیا میں پہلی ڈکشنری چھپ گئی جس میں ، انفاق کا معنی ’خرچ کرنا‘ نہیں بلکہ ’کھلا رکھنا‘ بیان کیا گیا اور اسی طرح ’’العفو‘‘ کا مفہوم بھی ذہنی تغیر کے ساتھ ہی تبدیل ہوگیا۔ پرویز صاحب کے سابقہ دور میں مفہوم آیت کیا تھا؟ یہ بھی دیکھ لیجئے : ﴿ يَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ﴾ (۲۱۹/۲) ’’آپ سے پوچھتے ہیں کہ کتنا خرچ کریں ؟ کہہ دیجئے کہ جتنا آسان ہو۔‘‘ (جولائی۳۹ء:ص۶۱) قُلِ الْعَفْوَ کے جدید مفہوم کی اساس پر نظامِ ربوبیت، جو اشتراکیت ہی کا ’قرآنی ایڈیشن‘ ہے، کی عمارت استوار کی گئی۔ اب ’زائد از ضرورت‘ مال و دولت کی موجودگی بھی خلافِ قرآن قرار پا گئی اور زمین کی شخصی ملکیت بھی، نہ صرف خلافِ قرآن ، بلکہ کفر وشرک قرار پاگئی : ’’قرآنِ کریم کی رو سے زمین (وسائل پیداوار) پر ذاتی ملکیت کا تصور ہی باطل اور شرک کے مترادف ہے۔‘‘ (مئی ۶۸ء: ص ۱۷) اب وہ آیات جو تفاضل فی ا لرزق پردلالت کرتی ہیں ، ان کا مفہوم بھی بدل گیا۔ مثلاً آیت (۷۱/۱۶) کے ابتدائی جملہ کا ترجمہ اب یہ قرار پایا : ﴿ وَاللّٰهُ فَضَّلَ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ فِیْ الرِّزْقِ…﴾(۷۱/۱۶) ’’مختلف افراد میں ، اکتسابی استعداد کا تفاوت، خدا کی طرف سے ہے (تمہارا اپنا پیدا کردہ نہیں )۔ ‘‘ (نظامِ ربوبیت: ص۱۳۲) جبکہ سابقہ دورِ پرویز میں ان الفاظ کا ترجمہ یہ تھا… ’’اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر باعتبارِ روزی کے برتری دی ہے۔‘‘ (معارف القرآن: جلد اول، ص۱۲۱) رہا صحابہ کے درمیان، معاشی تفاوت اور تفاضل، تو اسے اب یہ کہہ کر ردّ کردیا گیا کہ جب قرآن، قُلِ الْعَفْوَ کے حکم کی بنا پر کسی کے پاس فاضلہ دولت رہنے ہی نہیں دیتا او راپنی ’زائد از ضرورت دولت‘