کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 222
ہم نے ایک کو دوسرے پر فوقیت دے رکھی ہے تاکہ ایک دوسرے سے کام لیتا رہے۔‘‘ (معارف القرآن، جلد اول ،ص۱۲۱) قرآنی تعلیمات کی اساس پر صحابہ کا جو اوّلین معاشرہ وجود میں آیا، خود اس معاشرے میں بھی افراد کے درمیان معاشی تفاوت موجود تھا، اس پر پرویز صاحب کی بہت سی تحریریں گواہ ہیں : ’’مالی تفوق کے اعتبار سے خود دورِ صحابہ میں بھی مختلف طبقات موجود تھے۔ حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کے کاروبار میں ایک ہزار مزدور روزانہ کام کرتے تھے۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کی روزانہ آمدنی کا اوسط ایک ہزار دینار تھا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی تجارتی ترقی کا یہ عالم تھا کہ ایک بار ان کا قافلہ مدینہ میں آیا تو اس میں سات سو اونٹوں پر صرف اشیائِ خوردنی لد رہی تھیں ، لیکن مسلمانوں میں ان ہستیوں کا نام اگر آج تک صلوٰۃ و سلام کے ساتھ لیا جاتا ہے تو اس کی وجہ ان کی دولت وثروت نہیں ، بلکہ ان کا وہ ایمان، تقویٰ، اعمالِ صالحہ، ایثار و قربانی ہیں جو آنے والی نسلوں کے لئے انہوں نے بطورِ نمونہ کے یادگار چھوڑا ہے۔ انہی متمول صحابہ کے ساتھ ساتھ اصحابِ صفہ جیسے مفلوک الحال حضرات کا نام بھی آج تک مسلمانوں کیلئے باعث ِافزائش ِایمان و عمل ہے۔ ‘‘(جولائی ۳۹ء:ص ۶۹) غزوۂ تبوک کے موقع پر صحابہ کے جیش العُسرۃ کی تیاری میں ، ان کے معاشی تفاوت و تفاضل کی کیفیت بالکل اُجاگر ہوجاتی ہے : ’’یہ معرکہ، اخلاص و منافقت کی امتحان گاہ تھا چنانچہ ایک طرف صحابہ کا یہ عالم تھا کہ جو کچھ کسی کے پاس تھا، لے کر حاضر ہوگیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے نو سو اونٹ، ایک سو گھوڑے اور ایک ہزار دینار پیش کئے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے چالیس ہزار درہم دیئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کئی ہزار روپے کا نقد و جنس لے کر حاضر ہوئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے گھر میں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے سوا کچھ بھی چھوڑ کر نہ آئے۔ حضرت ابوعقیل انصاری رضی اللہ عنہ نے دوسیر چھوہارے لاکر حاضر کردیئے اور عرض کیا کہ رات بھر کسی کے کھیت پر مزدوری کرکے چار سیر چھوہارے حاصل کئے تھے، دوسیر بال بچوں کو دے آیا ہوں اور دوسیر خدمت ِاقدس میں حاضر ہیں ۔‘‘ (معارف القرآن:جلد چہارم، ص۵۸۰) ذہنی تغیر کا دورِ پرویز :ان سب اُمور کے اعتراف کے بعد پرویز صاحب پر ایک دوسرا دور بھی آیا جب وہ شاہراہِ اسلام پر سے پھسل کر اشتراکیت کے گڑھے میں گرتے ہیں ، تو اس گندے کیڑے کی طرح جو غلاظت میں پلنے اور نشوونما پانے کے باعث، تعفن اور بدبو ہی کو اپنی فطری فضا سمجھ لیتا ہے، اب وہ اسی اشتراکیت پر قرآن کا ٹھپہ لگاکر ’نظامِ ربوبیت‘ کے نام سے پیش کرتے ہیں جسے کبھی وہ اسلام کے منافی قرار دیا کرتے تھے۔ اب قرآن کی ہر آیت کا مفہوم بدلنا شروع ہوجاتا ہے اور ہر اصطلاحِ قرآن بلحاظِ مفہوم متغیر ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ الغرض اشتراکیت کی عینک جب ’مفکر ِقرآن‘ کے کانوں کو اپنی گرفت میں لے کر ان کی ناک پر سوار ہوجاتی ہے تو قرآن، حدیث، فقہ اور تاریخ کی ہر چیز ایک دوسرے ہی