کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 221
سے مستثنیٰ تھے۔ اگر ان سے اس حفاظت کے اخراجات کی مد میں کچھ وصول کر لیا جائے جو مسلمانوں کی زکوٰۃ سے بھی کم تھا تو اس میں اندھیر کیا ہے؟ عورتیں ، بچے، بوڑھے، اپاہج اور مذہبی رہنما اس سے مستثنیٰ تھے۔ اور پھر اس جزیہ کی مقدار کتنی تھی؟ معمولی حیثیت والے سے ۱۲ عہ سالانہ، متوسط درجے والے سے ۸عہ اور اس سے آگے خواہ کوئی کروڑ پتی ہو، زیادہ سے زیادہ ۱۲/ روپے سالانہ ، حالانکہ ایک کروڑ پتی مسلمان سے کم از کم اڑھائی لاکھ روپے سالانہ بطورِ زکوۃ وصول کیا جائے گا۔ صدقات و خیرات اس کے علاوہ ہوں گے اور اس مالی قربانی کے ساتھ ساتھ جب ضرورت لاحق ہوگی تو یہ جان ہتھیلی پر رکھ کر میدانِ جنگ میں بھی شریک ہوگا اور ذِمی رعایا کے مال، جان، مذہب، معابد کی حفاظت کرے گا یعنی ایک ذِمی رئیس، بارہ روپیہ ادا کرکے نہایت اطمینان سے اپنے گھر میں بیٹھا رہے گا اور اسی حیثیت کا ایک مسلمان اڑھائی لاکھ روپیہ زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد اسی ذِمی کے محافظ کی حیثیت سے میدانِ کارزار میں دشمن کی شمشیر و سناں کا مقابلہ بھی کرے گا۔ دشمن کی گولیاں ہوں گی او رمسلمانوں کا سینہ جو غیرمسلم رعایا کی حفاظت کے لئے سپر کا کام دے گا۔ مسلمانوں سے پیشتر ساسانیوں نے عیسائی رعایا پر جو ٹیکس لگا رکھا تھا، وہ ساسانی رعایا سے دگنا تھا اور اس کے جواز میں شاہ ساپردوم نے کہا تھا کہ لڑائی ہمیں لڑنی پڑتی ہے اور یہ مزے میں بیٹھے رہتے ہیں ۔ دُگنا کیوں نہ دیں ۔‘‘ (جون۳۹ء:ص ۴۸) ذاتی ملکیت کا اُصول، جب افرادِ معاشرہ کی متفاوت اکتسابی صلاحیتوں کے ساتھ مقرون ہوتا ہے تو تفاضل فی الرزق ایک لازمی نتیجہ کے طور پر واقع ہوتا ہے۔ یہ حقیقت بھی، کسی زمانہ میں پرویز صاحب کو مسلم تھی، چنانچہ وہ فرماتے ہیں : ’’قرآن کی رو سے ایک دوسرے پر رِزق میں فضیلت جائز ہے:﴿ وَاللّٰهُ فَضَّلَ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضِ فِیْ الرِّزْقِ﴾ (۷۱/۱۶) ’’اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر باعتبارِ رزق فضیلت دی ہے‘‘ اور وہ غلام اورآزاد میں یہی فرق بتاتا ہے کہ آزاد اپنی محنت کے ماحصل کا مالک ہوتاہے، غلام کو اس پر کوئی اختیار نہیں ہوتا : ﴿ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا عَبْدًا مَّمْلُوْکًا لاَ يَقْدِرُعَلٰی شَيْیٍٔ وَمَنْ رَّزَقْنٰهُ مِنَّا رِزْقًا حَسَنًا فَهُوَ يُنْفِقُ مِنْهُ سِرًّا وَّجَهْرًا﴾ ’’ اللہ ایک مثال بیان کرتا ہے، ایک غلام ہے، دوسرے کی ملک؛ وہ خود کسی بات کی قدرت نہیں رکھتا، اور ایک دوسرا آدمی ہے جسے ہم نے اپنے فضل سے نہایت عمدہ روزی دے رکھی ہے۔ وہ ظاہر پوشیدہ جس طرح چاہتا ہے، اسے خرچ کرتاہے۔ کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں ؟‘‘ … رِزق میں مختلف مدارج اسلئے ضروری ہیں کہ دنیا کا کاروبار چل ہی اس انداز سے سکتا ہے، تقسیم عمل کے لئے اختلافِ مدارج لاینفک ہے: ﴿نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَعِيْشَتَهُمْ فِیْ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّا﴾ ’’دنیاوی زندگی میں ان کی روزی ہم ہی تقسیم کرتے ہیں اور