کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 220
نے وارث مقرر کردیئے ہیں او رجن لوگوں سے تمہارے عہد بندھے ہوئے ہیں ، ان کو ان کا حصہ دو۔‘‘ (ماہنامہ طلوع اسلام: جولائی ۳۹ء، ص ۵۹تا۵۷ ) ﴿ اَنْفِقُوْا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا کَسَبْتُمْ﴾(۲۶۷/۲) ’’اپنی کمائی میں سے عمدہ چیز کو خرچ کرو‘‘ میں مَا کَسَبْتُمْ سے مطلب ہی یہ ہے کہ جو کچھ تم کھاتے ہو، وہ تمہاری ملکیت ہے۔‘‘ (جولائی ۳۹،ص ۶۰) سورۂ توبہ میں ہے:﴿ خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً﴾اس آیت میں صدقہ سے کیا مرا دہے ؟ علما کے نزدیک مراد ’زکوٰۃ‘ ہے۔ آج ’مفکر ِقرآن‘ جناب پرویز صاحب، اس کی تردید کرتے ہیں ، مگر ایک زمانہ تھاکہ وہ خود بھی اس سے زکوٰۃ ہی مراد لیا کرتے تھے : ’’اشتراکیت کے حامی کہہ سکتے ہیں کہ جب کسی کا سرمایہ جائیداد، کمائی، وِرثہ سب کچھ حکومت لے لے، تو یہ انفاق کی وہ حد ہے جس سے بڑھ کر قربانی اور ایثار کی کوئی مثال نہیں ہوسکتی،لیکن اسلامی انفاق، جو (تقویٰ پر مبنی ہے) اور اس قسم کے جبر میں بڑا فرق ہے، اسلام نے بھی ایک ٹیکس (زکوٰۃ) مقرر کیا ہے جو بہرحال وصول کیا جاتاہے: ﴿ خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَکِّيْهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ﴾(۱۰۳/۹) ’’ان کے مالوں میں سے صدقہ لیجئے کہ اس سے یہ ظاہر و باطن میں پاک ہوجائیں گے اور پھر ان کے لئے دعا کیجئے۔‘‘ (جولائی۳۹ء:ص ۶۱) اس زمانہ میں قُلِ الْعَفْوَ کے معنی وہ نہیں تھے جو آج بیان کئے جاتے ہیں ۔ آج تو اس کا مفہوم یہ بیان کیا جاتاہے کہ ’’زائد از ضرورت‘ سب مال کا انفاق کر ڈالو‘‘ لیکن اُس زمانہ، سارا مال خرچ کرنا کیا معنی، انفاق کا سرے سے یہ معنی ہی نہ تھا جو آج کیا جاتا ہے، یعنی ’کھلا رکھنا‘۔ دنیا میں ایسی ڈکشنری، اس وقت شائع ہی نہ ہوئی تھی، جو انفاق بمعنی ’کھلا رکھنا‘ واضح کرے : ’’لیکن ساتھ ہی، اس نے خیرات کا حکم بھی دیا ہے جس میں جبر و اکراہ کو دخل نہیں : ﴿ يَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ، قُلِ الْعَفْوَ﴾ (۲۱۹/۲) ’’آپ سے پوچھتے ہیں کہ کتنا خرچ کریں ؟ کہہ دیجئے کہ جتنا آسان ہو۔‘‘ (جولائی۳۹ء:ص ۶۱) جمع شدہ یا بچی ہوئی رقم پر، ڈھائی فیصد زکوٰۃ جس کا آج پرویز صاحب مذاق اُڑاتے ہیں ، کسی زمانے میں وہ خود نہ صرف یہ کہ اس کے معترف تھے، بلکہ جزیہ پر اعتراض کرنے والے غیر مسلموں کو وہ زکوٰۃ ہی کے حوالے سے جواب دیا کرتے تھے : ’’سب سے بڑا الزام جزیہ کے متعلق عائد کیا جاتا ہے اور ظاہر یہ کیا جاتا ہے کہ غیر مسلم رعایا سے یہ ’جرمانہ‘ ان کے مسلمان نہ ہونے کے جرم کی بنا پر وصول کیا جاتا تھا حالانکہ اس کی حقیقت بالکل جداگانہ ہے۔ مسلمانوں کو اپنی آمدنی (آمدنی نہیں بلکہ بچت…قاسمی) کا چالیسیواں حصہ حکومت کوادا کرنا پڑتا تھا اور اس کے علاوہ ہر قسم کی فوجی خدمت بھی ان کے ذمہ تھی۔ غیر مسلم رعایا جو ان کے زیر حکومت رہتی تھی، ان کی حفاظت کی ذمہ داری مسلمان حکومت پر لازم تھی، وہ فوجی خدمت