کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 219
ربوبیت کا نقشہ، ذہن پرویز کی کارگاہ میں ، بہت بعد میں تراشا گیا۔ ۱۹۴۷ء سے قبل پرویز صاحب کو اگر ان کی تحریروں کے آئینے میں دیکھاجائے تو وہ واضح طور پر مال و دولت اور زمین کی شخصی ملکیت کے قائل تھے۔ پھر ہر شخص کے معاشی حالات کے تنوع اور ان کی اکتسابی صلاحیتوں میں تفاوت کی بنا پر وہ تفاضل فی الرزق کے بھی قائل تھے۔ بالاوپست معاشی طبقات میں وہ اہل ثروت پر اسلام کی طرف سے عائد ہونے والی ڈھائی فیصد زکوۃ کے بھی معترف بلکہ مُعلن تھے۔ صدقہ و خیرات اور قانونِ میراث کے متعلق بھی وہ اس با ت کے مقر تھے کہ یہ دائمی اور مستقل احکام ہیں نہ کہ عبوری دور کے احکام ہیں جو وقتی یا ہنگامی صورتحال میں دیئے گئے ہوں ۔ قُلِ الْعَفْوَ کے دو الفاظ کی بنیاد پر آج اشتراکیت پر قرآن کا ٹھپہ لگا کر جس ’نظام ربوبیت‘ کا کریملین تعمیر کیا گیا ہے، ان دنوں ان الفاظ کا مفہوم، آج کے مفہوم سے قطعی مختلف تھا، چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیے : اشتراکیت اور اسلام کا موازنہ کرتے ہوئے کبھی پرویز صاحب نے یہ بھی لکھا تھا کہ ’’اشتراکیت، ذاتی اور انفرادی ملکیت کو تسلیم نہیں کرتی، لیکن اسلام ہر شخص کی کمائی کو اس کی ذاتی ملکیت قرار دیتا ہے۔ زمانۂ ظہورِ اسلام میں جائیداد و املاک عموماً مویشیوں کی شکل میں تھیں ، ان کے متعلق فرمایا: ﴿ اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا خَلَقْنَا لَهُمْ مِمَّا عَمِلَتْ اَيْدِيْنَا اَنْعَامًا فَهُمْ لَهَا مَالِکُوْنَ﴾ ’’کیا ان لوگوں نے اس پر نظر نہیں کی کہ ہم نے ان کے لئے دست ِقدرت سے مویشی پید ا کئے ہیں جن کے یہ لوگ مالک ہیں ‘‘ … جب خدا کی بنائی ہوئی چیزیں ، انسان کی ملکیت ہوسکتی ہیں تو انسان کی اپنی کمائی اور مصنوعات تو یقینا اس کی ملکیت ہوں گی، ارشاد ہے:﴿ لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِمَّا اکْتَسَبُوْا وَلِلنِّسَاءِ نَصِيْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ﴾ ’’جو مرد کمائیں ، وہ مردوں کا حصہ ہے اور جو عورتیں کمائیں ، وہ عورتوں کا حصہ ہے۔‘‘ اشتراکیت کے اُصولِ نفی ملکیت سے اسلام کا معاشی، تمدنی اور عمرانی ہر قسم کا نظام منہدم ہوجاتاہے۔ قرآن میں ہے﴿ وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّهٗ وَالْمِسْکِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا﴾ ’’قرابت دار کو اس کا حق دیتے رہنا اور محتاج اور مسافر کو بھی، مال کو بے موقع نہ اڑانا۔‘‘ ظاہر ہے کہ ان حقوق کی ادائیگی، اسی صورت میں ہوسکتی ہے جب کوئی چیز کسی کی ملکیت میں ہو اگر ہر چیز غیر کی ملکیت میں ہو اور کمانے والے کو صرف اس کی ضرورت کے مطابق حصہ ملے تو وہ دوسروں کے حقوق کیسے ادا کرسکتا ہے۔ یہی حال، ترکہ اور وراثت کے احکام کا ہے جس پر ذاتی ملکیت کی [غیر] موجودگی میں عمل ہو ہی نہیں سکتا، حکم ہے:﴿ وَلِکُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِیَ مِمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالاَ ْقَرَبُوْنَ وَالَّذِيْنَ عَقَدَتْ اَيْمَانُکُمْ فَاٰتُوْهُمْ نَصِيْبَهُمْ﴾ ’’ ہر ایسے مال کے لئے جسے والدین اور رشتہ دار چھوڑ جائیں ہم