کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 218
’’جنگ کے سلسلہ میں اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھو کہ اس سے پہلے تمہارا دستور یہ تھا کہ جنگ میں جو کسی کے ہاتھ آجائے، وہ اسی کا ہوا۔ یہی لوٹ کا مال وہ بنیادی جذبہ تھا جس کے لئے تم میدانِ جنگ میں جایا کرتے تھے۔ لیکن اب جنگ ظلم کو روکنے یا نظامِ عدل و انصاف قائم کرنے کے لئے ہوگی، ا س لئے اس میں جذبہ محرکہ لوٹ کا مال حاصل کرنا نہیں ہوگا۔ یاد رکھو، میدانِ جنگ میں جو مالِ غنیمت بھی ملے گا، اس میں سے پانچواں حصہ ’خدا و ررسول‘ یعنی مملکت کی انتظامی ضروریات کے لئے رکھ کر، باقی ضرورت مندوں کی ضروریات پوری کرنے میں صرف کیا جائے گا۔ مثلاً (میدانِ جنگ میں جانے اور کام آجانے والوں کے) اقربا کے لئے، یتیموں اور معاشرہ میں بے یارومددگار، تنہا رہ جانے والوں کے لئے، ان کے لئے جن کا چلتا ہوا کاروبار رُک گیا ہو یا جو کسی حادثے کی وجہ سے کام کاج کے قابل نہ رہے ہوں ۔ نیز ان مسافروں کے لئے جو مدد کے محتاج ہوں ۔ ہم جانتے ہیں کہ اس طرح ہاتھ آنے والے مال سے یوں دست کش ہوجانا، کچھ آسان کام نہیں ، لیکن اگر تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو، اور ان احکام پر جو ہم نے اپنے بندے پر، اس دن نازل کئے تھے جب دو لشکر ایک دوسرے کے مقابل آئے تھے او رجب حق و باطل نکھر کر سامنے آگیا تھا (تو تمہارے لئے ایسا کرنا مشکل نہیں ہوگا۔ مستقل اقدار پر ایمان، اس قسم کی تمام جاذبیتوں کو ٹھکرا سکتاہے)۔ اسے اچھی طرح یاد رکھو کہ اللہ نے ہر شے کے پیمانے مقرر کر رکھے ہیں اور ان پر اس کا پورا پورا کنٹرول ہے (اس لئے اس کے قانون پر عمل پیرا ہونے سے تمہیں کسی قسم کا نقصان نہیں ہوگا۔‘‘ (مفہوم القرآن: ص۴۰۴ تا ۴۰۵) الفاظ کے اس ہجوم پر بار بار نگاہ ڈالئے، شاید آپکے مقدر سیدھے ہوئے تو بات آپکے پلے پڑ جائے۔ مثالِ عاشر اب آخر میں ،میں ایک ایسی مثال پیش کر رہا ہوں جس کے ضمن میں ایسی بہت سی آیات آپ کے سامنے آئیں گی جن کی تعبیر کو ’نظریۂ ضرورت‘ کے تحت بدلنا پڑا ہے اور یہ بات واضح ہوجائے گی کہ پورا قرآن ’مفکر قرآن‘ کے مصلحتی محور کے گرد ہی گردش کرتا رہا۔ پرویز صاحب کے سابقہ معاشی تصورات: ایک زمانہ تھا، جب پرویز صاحب ابھی کارل مارکس کی ترتیب دی ہوئی معاشی فکر، سوشلزم یا کمیونزم کے اسیر ِزلف نہیں ہوئے تھے۔ وہ اگر قرآن پر غور بھی کرتے تھے تو ان کی آنکھوں پر بہرحال اشتراکیت کی عینک نہیں تھی۔ اس لئے وہ قرآنی آیات کا ترجمہ کرتے ہوئے ان ’ذہنی تحفظات‘کا خیال نہیں کیا کرتے تھے جو بعد میں اشتراکیت کے رنگ میں مصبوغ ہونے کے بعد، اب ان کے قلب و ذہن میں راسخ ہوگئے تھے اور جن کا لحاظ کرنا ان کی مجبوری بن گیا تھا۔ نظامِ