کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 217
عربی نژاد‘ ہو کر اس ’عجمی اسلام‘ پر برقرار رہتے۔ چنانچہ انہوں نے بعد میں جس ’عربی قانونِ غنیمت‘ کو قرآن کی اسی آیت میں سے نچوڑا ، اس کے مطابق اب’خمس‘ میں مسافروں ، مسکینوں ، یتیموں اور ذوی القربیٰ کا حصہ ختم ہوگیا اور خمس صرف ’خدا اور رسول‘ کیلئے مخصوص ہوگیا۔ اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ اگر قرآن میں اکٹھے آجائیں تو اس سے پرویزیوں کے نزدیک مراد ’مرکز ِملت‘ ہوتا ہے۔ توجہ فرمائیے؛ اگر مجرد ’اللہ‘ کا لفظ بولا جائے تو اس سے خالق کائنات ہی کی ذات مراد ہوگی او ر اگر صرف ’رسول‘کا لفظ بولا جائے تو اس سے مراد وہ مامور من اللہ شخصیت ہوگی جو اہل ایمان کے لئے اُسوہ ٔ حسنہ ہے۔ لیکن جب ’اللہ اور رسول‘ کے الفاظ (معطوف اور معطوف علیہ کی صورت میں ) اکٹھے بولے جائیں تو اب ’اللہ‘ ہی اپنی اُلوہیت سے اور ’رسول‘ اپنے منصب ِرسالت سے معزول ہوگیا۔ پھر جب اس طرح اللہ کی اُلوہیت اور نبی کی حیثیت ِنبوت (معاذ اللہ) ختم ہوگئی تو اس عدم سے ’مرکز ِملت‘ وجود میں آگیا۔ گویا یہ اُلوہیت اور نبوت کے مسائل نہ ہوئے بلکہ سائنس کی لیبارٹری کے مسائل ہوئے کہ آکسیجن او رہائیڈروجن کو جب ایک خاص ترکیب سے جمع کیا جاتا ہے تو جہاں آکسیجن کی تحریقی خاصیت ختم ہوجاتی ہے، وہاں ہائیڈروجن سے اس کی احتراق پذیری کی صفت منفک ہوجاتی ہے اور ’پانی‘ نام کی اسی طرح ایک نئی چیز معرضِ وجود میں آجاتی ہے؛ جس طرح ادارہ طلوعِ اسلام کی قرآنی لیبارٹری میں ’اللہ اور رسول ‘ کے مجموعے سے ’مرکز ِملت‘ معرض وجود میں آجاتا ہے ؎ یزداں کے تصور میں تراشا تھا جو پتھر اس میں سے بھی ابلیس کا پیکر نکل آیا بہرحال یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا جو یونہی نوکِ قلم پر آگیا۔ پرویز صاحب کی تعبیر جدید کا دوسرا جزو یہ ہے کہ مالِ غنیمت میں سے ایک خمس کو ’مرکز ِملت‘ کے لئے الگ کر لینے کے بعد بقیہ چار اخماس، لڑنے والے مجاہدین کو نہیں ، بلکہ ان کے رشتہ داروں ، یتیموں ، مسکینوں اور مسافروں میں تقسیم کئے جائیں گے۔ اب ’عجمی اسلام‘ کی وہ تعبیر ختم ہوگئی جس کے تحت مالِ غنیمت کا ۴/۵ حصہ مجاہدین میں تقسیم ہوا کرتا تھا۔ ملاحظہ فرمائیے، کہ آیت ِغنیمت کے پہاڑ میں سے کس طرح مفکر قرآن نے ’تعبیر جدید‘ کا چوہا کھود نکالا۔ آیت کے تقریباً ۴۵/ الفاظ ہیں اور اس کا تشریحی مفہوم تقریباً ۳۱۰ الفاظ پر مشتمل پیرا گراف میں بیان کیا گیاہے اور آیت بھی اسی قرآن مجید میں ہے جس کے متعلق یہ مسلسل ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے کہ قرآن واضح ہے ، مبین ہے، نور ہے؛ جو اپنے مفہوم کی وضاحت کیلئے کسی کا محتاج نہیں ۔ لیکن دسیوں الفاظِ قرآن کی تشریح، سینکڑوں الفاظ میں کی گئی ہے، ملاحظہ فرمائیے :