کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 216
تری ہر اَدا میں بل ہے، تری ہر نگاہ میں اُلجھن مری آرزو میں لیکن ، کوئی پیچ ہے نہ خم ہے! لیکن پرویز صاحب نے قتل خطا اور قتل عمد کی آیات میں خلط ِمبحث سے جو نتیجہ برآمد کیاہے، اس میں قتل عمد میں صرف قصاص کی سزا باقی رہ جاتی ہے، تخفیفات ختم ہوجاتی ہیں اور قصاص کامفہوم بھی ’قتل کا بدلہ قتل‘ نہیں رہتا بلکہ صرف ’مجرم کا پیچھا کرنا‘ رہ جاتا ہے۔ اگر مجرم کراچی پہنچ کر سمندر پار کر جائے اور اس کی گرفتاری کیلئے اگر آپ نے کراچی تک ’اس کا پیچھا کر ڈالا‘ تو قصاص کا تقاضا پورا ہوگیا۔ اللہ اللہ خیر صلا! اُمت ِمسلمہ پر ’مفکر ِقرآن‘ کا کس قدر احسان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قتل عمد میں دیت اور عفو کے جو ’اِغلال واَصر‘ مسلمانوں پر ڈال رکھے تھے، انہوں نے اُتار پھینکے ہیں اور قرآنی قانون کو ’دور حاضر کے تقاضوں ‘ سے ہم آہنگ کردیا۔ مثالِ تاسع قرآن میں قانونِ غنیمت سے متعلقہ آیت، پرویز صاحب کے ترجمہ ہی کے ساتھ ملاحظہ فرمائیے : (وَاعْلَمُوْ اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْیٍٔ فَأَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِیْ الْقُرْبٰی وَالْيَتٰمَی وَالْمَسَاکِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ اِنْ کُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ وَمَا اَنْزَلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعَانِ، وَاللّٰهُ عَلٰی کُلِّ شَيْیٍٔ قَدِيْرٌ) (الانفال: ۴۱) ’’اور جان رکھو کہ جو تمہیں مالِ غنیمت میں ملے، اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لئے، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے، (رسول کے) قرابت داروں کے لئے، یتیموں کے لئے، مسکینوں کے لئے اور مسافروں کے لئے نکالنا چاہئے (اور بقیہ چار حصے مجاہدین میں تقسیم کردیے جاسکتے ہیں )، اگر تم اللہ اور اس (غیبی امداد) پر یقین رکھتے ہو، جو ہم نے فیصلہ کردینے والے دن، اپنے بندے پر نازل کی تھی، جبکہ دو لشکر ایک دوسرے کے مقابل ہوئے تھے (تو چاہئے کہ اس تقسیم پر کاربند رہو، اور یاد رکھو) اللہ کی قدرت سے کوئی بات باہر نہیں ۔‘‘ (معارف القرآن، جلد چہارم، ص۶۲۴) ’’غنیمت اور فے ، دو اصطلاحات ہیں : مالِ غنیمت وہ جو مخالفین سے جنگ کے بعد حاصل ہو، اور مالِ فے ، وہ جسے مخالفین جنگ کئے بغیر چھوڑ جائیں ۔ مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ، بیت المال میں جمع ہوگا اور باقی چار حصے سپاہیوں کو تقسیم ہوں گے، مال فے پورے کا پورا بیت المال میں جمع ہوگا۔‘‘ (معارف القرآن: جلد چہارم، حاشیہ ص ۶۲۴) مالِ غنیمت کے متعلق یہی وہ اُصولی تعلیم ہے جو دورِ نزولِ قرآن سے لے کر آج تک علماءِ امت، فقہاءِ ملت ،مفسرین و محدثین، اصحابِ سیر اور مؤرخین تسلیم کرتے چلے آئے ہیں ۔ گویا پرویز صاحب کی زبان میں یہ ’عجمی اسلام‘ ہے جو ہزار برس سے چلا آرہا ہے۔ اب یہ کیسے ممکن تھا کہ پرویز صاحب ’خالص